مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدس میں گلگت، بلتستان، نگر ،استور اور کریمہ فاونڈیشن کے طلبہ تنظیموں کی جانب سے شہدائے مقاومت کی تکریم کے عنوان سے شہید علامہ سید ضیاء الدین کی برسی منعقد ہوئی۔ جس میں قم میں مقیم علماء و طلاب کرام کے ساتھ گلگت بلتستان کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے کثیر زائرین نے شرکت کی۔اس کانفرنس سے شہید جنرل قاسم سلیمانی کے رفیق ڈاکٹر علی رضا حسینی اور پاکستان کے مایہ ناز عالم دین آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے خطاب کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی معروف عالم دین آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے امام خمینیؒ کے فکری اور دینی مدبرانہ سیاسی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جو راستہ انتخاب کیا تھا وہ صرف جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ دنیا کے سارے مستضعف اقوام میں یہ احساس زندہ کرانا تھا کہ استکبار کی غلامی سے تب ہی رہائی ملے گی جب مقاومت اور استقامت کی راہ اپنائیں، کیونکہ جب تک کسی قوم میں استقامت کا جذبہ زندہ ہو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔
آیہ اللہ غلام عباس رئیسی نے شہدائے مقاومت کی زحمتوں اور مشقتوں سے حاصل کردہ عزت اور سربلندی کو عالم اسلام کے لئے ایک بے مثال نعمت جانا اور اس نعمت کے اسباب کی حفاظت کرنے کی تلقین کی۔
انہوں نے کہا کہ دفاع مقدس کے دوران ہم نے اس فضا کو بہت نزدیک سے دیکھا اور جنگ کے اس عالم میں پورے معاشرے پر معنویت اور الہی ارادے حاکم تھے، یہی وجہ تھی کہ معاشرہ اپنے آیندہ کے بارے میں پر امید اور پرسکون نظر آتا تھا۔
آیت اللہ رئیسی نے شہدا مقاومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تاکید کی کہ حق اور باطل کا یہ معرکہ ہمیشہ سے رہا ہے اور رہے گا لیکن اس میدان میں کامیابی صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جنہوں نے تقوائے الہی اختیار کی اور ایک بابصیرت رہبر کی زیر اطاعت ہمیشہ متحد رہے۔
انہوں نے مذکورہ اوصاف کے تناظر میں شہید عارف حسین حسینیؒ اور شہید ضیاء الدین رضویؒ کی طرز زندگی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان عظیم ہستیوں کی ظاہری زندگی کچھ اس طرح ان کے باطن کی عکاسی کرتی تھی کہ انہیں دیکھ کر ہر مومن کے ایمان اور عقیدے میں تازگی آجاتی تھی، انہوں نے نہ کبھی اپنی شہرت کیلئے کام کیا اور نہ ہی معین اہداف کی راہ میں کسی ملامت کرنے والوں کی ملامت پر مرعوب ہوئے، شہید عارف حسین اور شہید ضیاء الدین جیسے ظاہر میں پاک دکھائی دیتے تھے ایسے ہی باطن میں بھی پاکیزہ انسان تھے اور یہی لوگ قوم کی خدمت کرسکتے ہیں اور تبدیلی لا سکتے ہیں۔
انہوں نے شہادت کی موت کو عزت آفرین موت قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہداء کا خون کسی بھی معاشرے کی جسم میں روح پھونک کر اس کے باشندوں کو خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے، اس اہمیت کے ساتھ جب مرنا یقینی ہے تو کیوں نہ ہم شیاطین جن و انس سے ایمان و عمل کی جنگ لڑتے ہوے شہادت کی خوبصورت موت نہ مریں؟ مگر ہاں یہ عزت آفرین موت بھی اسے تب حاصل ہوتی ہے کہ جب زمانے کی حالات کو بہتر طریقے سے سمجھیں اور گہری سوچ و بچار کے ساتھ اس سے درست استفادہ کریں، یہی وجہ ہے کہ احادیث میں ایک لمحے کا تفکر کئی سال کی عبادت سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے یورپی یونین کی طرف سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو بلیک لیسٹ میں شامل کرنے کے اقدام کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ دشمن بہتر جانتا ہےکہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی فتنوں کے اس دور میں اپنی ذمہ داریاں بہتر طریقے سے انجام دے رہی ہے جس وجہ سے دشمن کے دلوں میں خوف طاری ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر علی رضا نے ایران عراق کے آٹھ سالہ جنگ کی اہمیت اور دفاع مقدس کے آثار و برکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں شرکت کرنے والے ایرانی مجاہدین کی اوسط عمر 18 سال تھی جو کسی خوفناک میدان میں وحشیانہ حملہ آوروں کی دہشت کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی عمر نہیں ہوتی، ادھر سے ابھی ملکی سیاست اور معیشت بھی منظم طریقے سے مستحکم نہیں تھی۔ جبکہ ہمارے دشمن کو ہر قسم کے مادی امکانات اور جنگی ساز و سامان فراہم ہونے کے ساتھ دنیا کے تمام شیطانی طاقتوں کی سیاسی اجتماعی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ ایسے میں کسی سیاست دان نے سوچا بھی نہ تھا کہ ہم انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ ان تمام حالات کے باوجود، خدا پر توکل اور ایمان کے ساتھ اپنے رہبر حضرت امام خمینیؒ کی اطاعت کو فرض سمجھنا اور اپنی کامیابی پر پورا یقین رکھتے ہوئے میدان میں اتر آنا، تین ایسے موثر عامل تھیں جو ہماری کامیابی کا موجب بنا اور یہی وہ تین عناصر اور اصول ہیں جو آج بھی مقاومت کی راہ میں روشن چراغ کی حیثیت رکھتی ہیں اور باطل طاقتوں سے برسرپیکار ہر سپاہی کو انہی اصولوں کی روشنی میں اپنے اہداف کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔