مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں شرکت کے موقع پر چائنہ نیشنل ٹیلی ویژن نیٹ ورک (سی سی ٹی وی) اور چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک (سی جی ٹی این) کے ساتھ بات چیت کی۔ اس گفتگو کا مکمل متن درج ذیل ہے۔
اینکر: شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی باضابطہ رکنیت پر ہم آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ آپ کی رائے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے اس رکنیت کی کیا اہمیت ہوگی؟
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: بسمالله الرحمن الرحیم، سب سے پہلے میں آپ کے ساتھیوں اور تمام عزیز ناظرین کو سلام کہنا چاہتا ہوں۔ شنگھائی تنظیم میں ایران کی باضابطہ رکنیت اسلامی جمہوریہ ایران اور شنگھائی تنظیم کے لیے ایک باہمی موقع ہے۔ شنگھائی تنظیم کے رکن ممالک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ایسی صلاحیتیں ہیں جو اس رکنیت سے ایک دوسرے کی پوٹینشل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ چین، روس، بھارت جیسے ممالک اور وسطی ایشیا کے ممالک کی رکنیت کے ہوتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج دنیا کی معیشت اور دولت کا ایک قابل ذکر حصہ شنگھائی کے رکن ممالک کا ہے۔ میرے خیال میں شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت ایران اور دیگر رکن ممالک کے درمیان رابطے کے لیے ایک اچھی بنیاد ہے اور اس صلاحیت کو یقینی طور پر ایران اور شنگھائی تنظیم کی معیشت کو مضبوط اور ترقی دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ میں تمام رکن ممالک بالخصوص چین کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ایران کی مستقل رکنیت کے لیے زمین ہموار کی۔
اینکر: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں آپ نے کہا کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے اور ہم تسلط کے دور کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں اور کثیرالجہتی اور ایک نئی فکر اور نقطہ نظر کے ساتھ ہم مزید مفید اتحادوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس فریم ورک میں آپ ایران کے لیے کیا افق دیکھتے ہیں؟
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: دنیا کے لوگوں کے پاس پرانے دور کی بری یادیں ہیں۔ پرانا دور بالادستی، یکطرفہ پن، بہت سی اقوام کے حقوق کی پامالی کا دور تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نیا دور کثیرالجہتی اور نئے پاور جنریٹنگ گروپس کی تشکیل کا دور ہے۔ ایران کا روس، چین اور شنگھائی تعاون تنظیم، یوریشین یونین اور ای سی او تعاون تنظیم کے ساتھ تعاون نئی طاقتیں پیدا کر سکتا ہے۔ ایران اور چین کے درمیان تعاون ایک نئی طاقت پیدا کر سکتا ہے، میرے خیال میں یہ تعاون دنیا میں یکطرفہ پن کی نفی کی سمت ہو سکتا ہے۔
اینکر: آپ 21ویں صدی میں ایران کا تصور کیسے کرتے ہیں؟
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: کچھ اہم معیارات تیار کیے گئے ہیں اور ایران کے اقدامات کو ان معیارات سے ماپا جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے دوسرے مرحلے کے اعلان میں کہ جسے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نے مرتب اور اعلان کیا ہے، ایران کے مستقبل کے لیے ایک مفصل نقطہ نظر تیار کیا گیا ہے تاکہ ایران مثال کے طور پر خودمختاری، آزادی، سماجی انصاف، ایرانی عوام کا طرز زندگی، سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے مسائل میں اور تمام شعبوں میں ان اہم اہداف کے حصول کی طرف بڑھ سکے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں، حکومت کے آغاز سے لے کر اب تک ہم نے 8 فیصد اقتصادی ترقی کا ہدف رکھا ہے اور ہم پہلے مرحلے میں 8 فیصد اقتصادی ترقی تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ایک مضبوط ایران کے حصول کے لیے ہمیں انقلاب کے دوسرے قدم کے بیان کے اہداف اور معیارات کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس حکومت میں تبدیلی کا پروگرام ہے اور ہم ان اہم اہداف کے قریب سے قریب تر جانے کے لیے تبدیلی کے اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ سوچیں کہ اس مقام تک پہنچنا ممکن ہے؟ جواب ہاں میں ہے؛ ہم کر سکتے ہیں. دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو شہید حاج قاسم سلیمانی کا مکتب "ہم کر سکتے ہیں" کا مکتب تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود کیا تمام زرعی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں معاشی ترقی، سماجی انصاف اور آزادی کا حصول ممکن ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم کر سکتے ہیں۔ ہم عزم اور امید کے ساتھ بہت روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
اینکر: نیویارک میں زیر بحث اہم ترین موضوعات میں سے ایک یعنی پابندیوں کے مسئلہ کے بارے میں اظہار خیال کریں۔
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: چین سمیت علاقائی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات ان میں سے بہت سے خطرات اور پابندیوں کو بے اثر کر سکتے ہیں۔ کل تک امریکی فوجی چڑھائی کے ذریعے دوسرے ممالک پر اپنے عزائم مسلط کرتے تھے لیکن آج پابندیاں ملکوں اور حکومتوں کو دھمکیاں دینے کا ایک حربہ ہے۔ آج وہی فوجی مہم اور عسکری چڑھائی پابندیوں میں بدل چکی ہے۔ درحقیقت پابندی اقوام کے خلاف ایک جنگ ہے تاہم پابندی والے ممالک کا رابطہ امریکی پابندیوں کو بے اثر کر سکتا ہے۔ ایران، چین اور روس اور دوسرے ملک جن پر امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگائی جا رہی ہیں ان کے درمیان رابطے ان پابندیوں کو بے اثر کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ پابندیوں کے باوجود ہم نے ملک میں بہت ترقی کی ہے۔ امریکیوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کو اس طرح کی پیشرفت حاصل ہوجائے گی لیکن ہم تمام شعبوں میں پابندیوں کے باوجود ملک کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ خطے میں چین اور وسطی ایشیائی ملکوں جیسے اپنے دوستوں کے ساتھ مضبوط ارادے اور تعامل کے ساتھ ان پابندیوں کو مکمل طور پر بے اثر کر دیں گے۔
اینکر: جے سی پی او اے ﴿۲۰١۵ کے جوہری معاہدے﴾ کے احیاء میں بنیادی رکاوٹ کیا ہے؟
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: ہم ایک اچھا اور منصفانہ معاہدہ چاہتے ہیں۔ امریکیوں کو اپنے وعدوں پر پورا اترنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی اپنے وعدے پورے کریں، پابندیاں اٹھا لیں اور ایران کو ضروری ضمانتیں دیں تاکہ جے سی پی او اے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے وعدوں سے پیچھے نہ ہٹیں تو ایک اچھے معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے۔ یہ کوئی نیا معاہدہ نہیں ہے، یہ جے سی پی او اے ہی ہے لیکن جے سی پی او اے میں دو مسائلے پیدا ہوئے۔ ایک یہ کہ امریکی اس سے باہر نکل گئے اور دوسرا یہ کہ یورپ والوں نے اپنا عہد پورا نہیں کیا۔ اگر امریکی اور یورپی اپنا عہد پورا کریں تو میرے خیال میں اچھے معاہدے کی گنجائش موجود ہے۔
اینکر: آئیے ایران کے حالیہ واقعات کی بات کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایک نوجوان خاتون کی موت ہوگئی ہے جس پر شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ آپ نے ضروری تحقیقات اور چھان بین کا حکم دیا ان تحقیقات کی کیا حیثیت ہے اور آپ ان مظاہرین سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: میں نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ اس خاتون کی جان ضائع ہونے کے معاملے کی سنجیدگی اور احتیاط سے پیروی کریں۔ مختلف گروپ اس معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا اس معاملے میں کوئی کوتاہی یا غلطی تھی یا اس کی موت قدرتی طور پر ہوئی تھی۔ یہ معاملہ زیر تفتیش ہے۔ میں کوئی حتمی بیان نہیں دینا چاہتا لیکن ایرانی پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے اس معاملے کی تحقیقات کی اور کہا کہ یہ مار پیٹ نہیں تھی اور خاتون کی اپنی جسمانی پیچیدگیاں اس کی موت کا سبب بنی تھیں۔ اس خاتون کا پہلے بھی دو بار آپریشن ہو چکا ہے اور اس کا میڈیکل ریکارڈ دستیاب ہے۔ فرانزک شعبے کے ایک گروپ نے اس مسئلے کی تحقیقات کی۔ طبی معائنہ کار نے بھی تقریباً یہی رائے دی لیکن میں قطعی رائے نہیں دیتا اور حتمی رائے جج اور عدالتی نظام پر چھوڑتا ہوں۔ وہ قطعی رائے دیں گے۔
لیکن بات یہ ہے کہ ایسے واقعات مغرب میں بھی ہوتے ہیں۔ گارڈین اخبار کے مطابق انگلینڈ میں 28 ہفتوں کے دوران 80 سے زائد خواتین پولیس کے پرتشدد رویے کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکی ہیں۔ اس معاملے کی تحقیقات کس نے کی کہ ان واقعات کی وجہ کیا ہے؟ امریکہ میں پچھلے سال ایک ہزار سے زائد لوگ پولیس کے ہاتھوں مارے گئے، کون یہ چھان بین کرنے گیا کہ یہ ہزار لوگ پولیس کے ہاتھوں کیسے مارے گئے!
ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کا تحفظ اسلامی جمہوریہ کی ذات اور جوہر کا حصہ ہے یعنی کوئی چاہے یا نہ چاہے، ہم الہی ذمہ داری کے لحاظ سے بھی اور عوام کی جانب سے تفویض کردہ مشن کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو انسانی جانوں کی حفاظت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور انسانوں کے مال اور حقوق کے حوالے سے ضرور یہ کام کریں گے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ جو لوگ آج فریاد بلند کر رہے ہیں وہ دوہرے معیار پر کیوں چل رہے ہیں؟ انسانی حقوق ایک جگہ ہیں اور ایک جگہ نہیں؟! انہیں اس عورت کے انسانی حقوق کی فکر ہے لیکن ان دوسری عورتوں کا کیا ہوگا؟ ان ہزار لوگوں کا کیا ہوگا؟ آج کی دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بہت سی مثالوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے؟
امریکی دو دہائیوں تک افغانستان میں موجود تھے جنگ، خونریزی اور عورتوں اور بچوں کے قتل کے سوا کچھ نہیں بچا۔ صرف 35 ہزار بچے معذور ہیں۔ ان کا جواب کون دے گا؟ کیا یہ انسانی حقوق نہیں؟ کیا کسی کو ان پر تحقیق نہیں کرنی چاہیے؟ ان سے کوئی یہ نہ پوچھے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو کی دو دہائیوں کی موجودگی کا نتیجہ کیا نکلا؟ اس موجودگی سے افغانستان میں کیا خوشحالی آئی ہے؟ کیا افغانستان کے لوگوں کے لیے جنگ، خونریزی اور مصائب کے علاوہ کچھ لایا ہے؟ کیا یہ انسانی حقوق نہیں؟ افغانستان میں انسانی حقوق کی تحقیقات کیوں نہیں کی جاتیں؟ ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے، ایک تو مطالبات یا احتجاج کا مسئلہ ہے۔ حکومت اور حکام ہمیشہ احتجاج کا احترام کرتے ہیں۔ ٹریڈ یونین کا احتجاج ہو سکتا ہے اور لوگ احتجاج کر سکتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں! مطالبات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اشتعال انگیزی ہے جو مغربی ملکوں اور ان کے میڈیا کی طرف سے پھیلائی جا رہی ہے اور لوگوں کو فساد کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ عوامی مطالبات کی لہر پر سوار ہونا چاہتے ہیں اور اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت میں سیاسی رویہ اپنا رہے ہیں۔ لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں اور انہیں فساد کی دعوت دے رہے ہیں۔ فساد کسی بھی ملک میں قابل قبول نہیں۔ کوئی بھی حکومت اس بات کو قبول نہیں کرے گی کہ اس کے ملک کا نظم و نسق خراب ہو۔ "آگ لگانا" اور "لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا" احتجاج نہیں ہیں۔ احتجاج اور مطالبات کے اظہار کو ہمیشہ مدنظر رکھا گیا ہے۔ بنیادی طور پر ایران آزادی اظہار کا ملک ہے۔ جب امریکی اور یورپی میڈیا لوگوں کو فسادات کی ترغیب دیتا ہے تو اس کا مطلب عدم تحفظ، قتل اور خونریزی ہے۔ یہ اب کوئی احتجاج نہیں ہے اس سے ملک کے نظم و ضبط میں خلل پڑ رہا ہے اور فطری طور پر اس مسئلے کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
لہذا یہاں تین مسائل ہیں: ایک؛ ایک عورت کا مسئلہ جس کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے کہ بلاشبہ اس کی پیروی کی جائے گی۔ کسی کا حق ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے اس کے والد کو فون کیا اور کہا کہ اطمینان رکھیں کہ ہم اس معاملے کی پیروی کریں گے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جب سے صدر نے مجھ سے رابطہ کیا ہے، میرے دل کو تقویت ملی ہے کہ وہ ضرور مسئلے کی چھان بین کریں گے۔ لوگ مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ عوام کا یہ اعتماد میرے لیے اثاثہ ہے۔ جب میں نے وعدہ ہے کہ اس کی پیروی کروں گا تو میں مصمم انداز میں اور تندہی سے پیروی کروں گا۔ میں نے کہا کہ یہ لڑکی میری اپنی بیٹی کی طرح ہے، تمام ایرانی لڑکیاں ہماری بیٹیاں ہیں۔ دو، اعتراض قابل سماعت ہے۔ یہ ہماری حکومت کے پروگرام کا حصہ ہے اور ایسی باتیں ہمیشہ سنی جاتی ہیں۔ تیسرے؛ یہ سرفنگ اور موج سواری ہے جو مغربی چاہتے ہیں جس کا پچھلے دو موارد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم ایران مخالف اور اسلامی جمہوریہ مخالف کو لہروں پر سوار نہیں ہونے دیں گے۔ آج امریکی اور مغربی لوگ احتجاج کی لہر پر سوار ہونا اور انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ قدرتی طور پر یہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اینکر: آپ نے سمرقند میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور کئی بار ایک دوسرے سے فون پر بات بھی کی۔ ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور کچھ بین الاقوامی امور کے پیش نظر آپ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے دوست ملک چین نے مسٹر شی جن پنگ کے دور حکومت میں اقتصادی ترقی کی سمت میں بڑے قدم اٹھائے ہیں جبکہ ان کی پالیسیوں نے بھی خطے کے ملکوں کے درمیان تعلقات کی اچھی بنیاد ڈالی ہے۔ ایران اور چین کے درمیان تعلقات میں بہتری کے حوالے سے بھی ان کے دور حکومت میں اور چینی صدر کے ساتھ ہماری ملاقات کے ذریعے بہتر تعاون کی بنیاد فراہم کی گئی ہے اور ایک اہم موڑ پیدا ہوا ہے۔ آج کورونا وائرس کو دیوار سے لگانے اور اس سے پیدا شدہ محدودیتوں کے اٹھنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے چین کے دورے کے لیے زمین ہموار کی جاچکی ہے۔ میں نے بھی انہیں تہران کے دورے کی دعوت دی اور یہ طے پایا کہ میرے بیجنگ کے سفر کے بعد ان کا دورہ تہران بھی ہو گا۔ ہم نے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کی سطح کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔
اینکر: چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں قومی کانگریس جلد شروع ہو گی جو ہمارے لیے ایک اہم اجلاس ہے۔ اس کانگریس کے بعد چین اور ایران کے تعلقات میں کیا امید کی جا سکتی ہے؟
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: میں نے مسٹر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات میں (کانگریس کے کامیاب انعقاد کے لئے) نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس اہم ملاقات میں چین کی ترقی اور تہران-بیجنگ کے تعلقات کے فروغ کے لئے فیصلے کئے جائیں گے۔ آج چین کے ساتھ ہمارا رابطہ دوسرے ملکوں کی طرح عام رابطہ نہیں ہے۔ اس ملک کے ساتھ ہمارا رشتہ بہت پرانا اور اسٹریٹجک ہے۔ ہم نے چین کے ساتھ 25 سالہ جامع تعاون کے پروگرام پر دستخط کیے ہیں۔ کچھ لوگ اس منصوبے سے ناراض ہو سکتے ہیں لیکن کوئی حرج نہیں، کیونکہ ہم ایران اور چین کے درمیان جامع تعاون کے منصوبے کو سنجیدگی سے نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ سمرقند میں شنگھائی اجلاس کے موقع پر ہماری ایک دوسرے کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ہم نے اس بات پر زور دیا کہ اس پروگرام پر تیزی سے عمل کیا جائے۔
اینکر: اکتوبر کا پہلا دن چینی نئے سال کا پہلا دن ہے۔ اس نئے سال کے جشن کے حوالے سے چینی عوام تک اپنا پیغام پہنچائیں۔
آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی: چین کے عوام کو نیا سال مبارک ہو۔ امید کرتا ہوں کہ نئے سال میں وہ جدت، تخلیقی صلاحیت، محنت اور ثابت قدمی جو کہ چینی ہمیشہ سے رکھتے ہیں، کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں کامیاب ہوں گے۔ ان کی محنت و استقامت سبب بنی ہے کہ چین اپنے آپ کو ایک نمایاں اقتصادی اور سیاسی طاقت کے طور پر ظاہر کرسکے۔ مجھے یقین ہے کہ چین میں آج کی انتظامیہ کے منتظمین اور اس ملک کے عوام کی استقامت سے جو اپنی جد و جہد اور انتھک محنت کے لیے مشہور ہیں، آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دنیا کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھ سکیں گے اور خطے کے لوگوں کے ساتھ تعاون اور رفاقت کے ذریعے نئے دور میں چین کی ترقی کے لئے بڑے بڑے قدم اٹھا سکیں گے۔