مہر خبررساں ایجنسی؛ مہر میگزین: آپ مہر میگزین کے نامہ نگار ہوں اور آپ کی نظریں اپنے گرد و پیش پر نہ ہوں، یہ محال ہے۔ ہر انسان ایک موضوع ہوتا ہے جس کا بغور مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے رویے کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ انسان اس کائنات کی عجیب ترین مخلوق ہے۔ ہر انسان در حقیقت ایک دنیا ہے جو کسی گوشے میں بیٹھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے جب میں لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے حیرت و تعجب سے بھرا فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ جب آپ ان کے قریب جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر کسی کا اپنا ہی رنگ ہے۔ یہی رنگوں، نیتوں، رغبتوں، ارادوں اور چاہتوں کا تنوع ہے جو ہر کسی کو ایک مخصوص موضوع میں تبدیل کردیتا ہے۔
خیر، آگے بڑھتے ہیں۔ مشہد سے الوداع کی زیارت تھی اور میں جلدی میں حرم سے باہر نکل رہا تھا کہ ناگہاں علی پر نظر پڑی؛ شرمیلا اور سادہ سا نوجوان معمولی سی اسٹال نما بساط بچھا کر حرم کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھا تھا اور لوگوں کے جوتے پالش کر رہا تھا۔ میں قریب گیا، اسے ایسی کیفیت میں پایا کہ میری جلدی کے باوجود اس نے مجھے روک دیا۔ دل چاہا کہ اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنے کے لئے ہی صحیح، اپنے جوتے اس کے حوالے کردوں۔
دن میں خوانچہ فروشی اور راتوں کو جوتوں کی پالش
میرے مٹی میں اٹے جوتوں کو پالش کرنے میں مصروف تھا، اسی حال میں اس کا نام اور کام کا پوچھا تو جواب دیا: میرا نام علی ہاشمی اور ١۹۹۳ کی پیدائش ہے اور مشہدی ہوں۔ اصلی کام خوانچہ فروشی اور پھیری لگا کر چیزیں بیچنا ہے۔ بعض اوقات حرم کے پاس زائرین کے جوتوں کو مفت میں پالش کرتا ہوں۔ ابھی تقریباً ایک ہی سال ہوا ہے کہ خوانچہ فروشی کا کام شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے مختلف جگہوں پر کام کرتا تھا اور کبھی کہیں پر ہوتا تھا تو کبھی کہیں۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ حالات برے نہیں ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے۔ صبح کو خوانچہ فروشی کرتا ہوں اور پھیری لگا کر جرابیں، بیگ، بٹوے اور جوتوں کا سامان بیچتا ہوں۔ اس سے کمائی بھی اچھی ہوتی ہے یعنی گزربسر ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پورا کرتا ہے۔ اسی کم مقدار پر راضی ہوں۔
جمعرات، جمعہ اور چھٹی والے دن مفت جوتے پالش کرتا ہوں
وہ مجھے پسند آگیا۔ باتونی قسم کے لوگوں میں سے نہیں تھا کہ جو دل لبھانے والی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے زبردستی باتیں اگلوا رہا تھا۔ بہت دھیمی آواز تھی، مشکل سے سن پا رہا تھا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں علی سے پوچھتا ہوں کہ وہ یہاں کب سے بیٹھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے: تقریباً ایک سال پہلے امام رضا ﴿ع﴾ کی شب شہادت میرے اندر ایک جذبہ پیدا ہوا کہ یہ کام انجام دوں۔ نہیں معلوم، خود امام رضا ﴿ع﴾ نے میرے اندر ایک شوق پیدا کیا اور مجھ پر نظر ڈالی۔ کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن تقریباً ایک سال ہوچکا ہے کہ جمعرات، جمعہ اور ایام شہادت و ولادت میں یہاں بیٹھتا ہوں۔ کوئی مخصوص ٹائم نہیں بتا سکتا لیکن جتنا مولا کی نظر کرم ہو یہاں رہتا ہوں۔ خود مولا بلاتے ہیں۔ ہمیں خود مولا نے بلایا ہوا ہے۔
اس دوران حتی کہ اپنے قرض بھی اتار چکا ہوں
علی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: جن دنوں میں حرم آتا ہوں اس دن پھیری والے کام کی کوئی کمائی نہیں ہوتی۔ اللہ کا شکر اس دوران بھی نہ صرف کسی مشکل کا سامنا نہیں کیا بلکہ امام رضا ﴿ع﴾ نے میرے قرضے تک چکا دیئے ہیں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن اسی عرصے میں میرے اوپر جو کچھ قرضے تھے مولا نے ان کا انتظام کیا اور میں ادا کرچکا ہوں۔ اللہ نے صحت دی تو زائرین اور امام رضا ﴿ع﴾ کے عشق میں دوبارہ آتا رہوں گا۔
خوشی ہے کہ میرے جوتے پالش کرنے سے زائرین کو اربعین کی یاد آتی ہے
میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ علی یہاں حرم کے سامنے اور زائرین کے درمیان چھٹی کے دن گزار کر کیسا محسوس کرتا ہے۔ اپنی اسی کم گوئی کے ساتھ جواب دیتا ہے: اس کے احساس کو صرف خود مولا جانتے ہیں۔ میں بس اس سے ہی خوش ہوں کہ جو لوگ کربلا اور اربعین پر گئے ہوئے ہیں، یہاں پہنچ کر ان کے لئے اربعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اربعین کے راستے میں بھی بہت لوگ ہوتے ہیں جو زائرین کے جوتے پالش کرتے ہیں۔ مجھے اس پر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ مجھے صرف ایک بار نصیب ملا کہ اربعین پر جاسکا ہوں۔
علی زائرین کے رد عمل کے بارے میں کہتا ہے: دعا دیتے ہیں۔ ایسی دعائیں کہ پہلے سے بڑھ کر امام رضا ﴿ع﴾ کی نظر کرم مجھ پر پڑے۔ میرے لئے یہی دعائیں کافی ہیں۔ البتہ بسا اوقات خود زائرین جب میں ان کے جوتوں کو پالش کرتا ہوں تو اصرار کر کے کچھ رقم ہدیہ دے جاتے ہیں۔ معمولی رقم سے لے کر ایک لاکھ اور دو لاکھ تومان تک۔ مختصر یہ کہ مولا کے زائرین لطف و مہربانی کرتے ہیں۔
بادشاہ بھی بن جاوں تو زائرین کے جوتے پالش کرنا نہیں چھوڑوں گا
میں اس پاک دل خوانچہ فروش سے پوچھتا ہوں: اگر ایک دن کروڑ پتی بن جاو تو ممکن ہے اس کے بعد زائرین کے جوتے مفت پالش کرنا چھوڑ دو؟ وہ جواب دیتا ہے: میں امام رضا ﴿ع﴾ سے چاہتا ہوں اگر سب سے بڑا کروڑ پتی انسان، حتی کہ کسی ملک کا بادشاہ بھی بن جاوں تو مجھے دوبارے یہاں آنے کی اجازت دیں اور حرم کے پاس ان کے زائرین کے جوتے پالش کرتا رہوں۔ پہلی محرم سے ایک دو دن پہلے تک روزانہ حرم کے سامنے بیٹھتا تھا اور زائرین کے جوتے پالش کرتا تھا۔
اس کام کے متعلق اپنے گھر والوں کی رائے کے بارے میں کہتا ہے: گھر والے اعتراض کرتے ہیں لیکن میں زیادہ پروا نہیں کرتا اور سنی ان سنی کردیتا ہوں۔ مجھے حرم امام رضا ﴿ع﴾ کے پاس کام کرنا اچھا لگتا ہے۔ جب وہ زیادہ اصرار کرتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ مجھے اپنا کام پسند ہے، صرف یہی کام کرنا چاہتا ہوں۔
چاہتا ہوں زائرین کے لئے مشہد کے متعلق اچھی یادیں بناوں
اس کی ایک دلی آرزو بھی ہے اور چاہتا ہے کہ مفت جوتے پالش کر کے زائرین کے لئے ایک اچھی تصویر پیش کرے۔ خود کہتا ہے: چاہتا ہوں زائرین کا دل ہم مشہد والوں کے متعلق تھوڑا مزید صاف ہو اور وہ مشہد سے اچھی یادیں لے کر جائیں۔ یہ جو مشہد میں اتنی مہنگائی اور افراط زر دیکھ رہے ہیں اسے ہم مشہد والوں کی ناانصافی کے کھاتے میں نہ ڈالیں۔
پاک دل خوانچہ فروش نوجوان اور امام رضا ﴿ع﴾ کے ہمسائے علی ہاشمی کی آخری بات ان زائرین سے ہے جو مشہد آتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: میری مولا کے تمام زائرین سے یہ گزارش ہے کہ جب مشہد آئیں تو سب سے پہلے امام رضا ﴿ع﴾ کے حرم پر حاضری دیں اور اس کے بعد اگر وقت ملے تو دوسری جگہوں پر جائیں۔