اجراء کی تاریخ: 31 جولائی 2022 - 19:42

عراق میں سیاسی ڈیڈلاک گزشتہ ١۰ اکتوبر کے پارلمانی انتخابات کے بعد اپنے تعطلی کے سب سے طویل دور میں داخل ہوگیا ہے اور نئی تبدیلیوں کے دھانے پر کھڑا ہے۔

مہر خبر رساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک: عراق گزشتہ بدھ یعنی ۲۷ جولائی سے موجودہ پارلمانی انتخابات کے بعد طویل ترین سیاسی تعطل کے دور میں داخل ہوگیا ہے جبکہ عراقی سیاسی گروہ ابھی تک صدر کا انتخاب اور نئی حکومت تشکیل نہیں دے سکے ہیں۔ اگرچہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں عراقی کی ملکی آمدنی بھی بڑھی ہے تاہم سیاسی ڈیڈلاک نے معاشی اصلاحات، ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت اور یہاں تک کہ رواں سال کے مالی بجٹ کی منظوری کو پس و پیش میں ڈال دیا ہے۔ 

اس وقت گزشتہ انتخابات سے ۹ مہینے گزرنے کے باوجود نئی حکومت تشکیل نہیں پائی ہے اور عراق میں نئے صدر اور وزیر اعظم کے انتخاب کے بغیر ۲۹۲ دن گزرنے کا ریکارڈ قائم ہوچکا ہے جبکہ اس سے پہلے یہ ریکارڈ ۲۰١۰ میں انتخابات کے بعد ۲۸۹ دن تھا جو در نہایت نوری المالکی کے وزیر اعظم بننے پر ختم ہوا تھا۔ 

عام طور پر عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کےعمل میں کچھ مہینے لگتے ہیں جس کی وجہ تمام اہم سیاسی دھڑوں کا باہمی اتفاق ہے اور اسی کے بعد حکومت کی تشکیل ممکن ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ اختلافات محض وزیر اعظم کے انتخاب تک محدود نہیں ہیں بلکہ کردستان کے علاقے کی دو اہم جماعتیں یعنی ڈیموکریٹک پارٹی اور پیٹریاٹک یونین ابھی تک صدارت کے لئے ایک متفقہ امیدوار پر اتفاق تک نہیں پہنچ سکی ہیں جبکہ صدر ہی وزیر اعظم کو کابینہ بنانے پر مامور کرتا ہے۔ 

امریکہ کے حملے اور بعثی حکومت کے سقوط کے بعد سے اب تک وزارت عظمی کا  منصب شیعہ جماعتوں جبکہ صدارت کرد اور پارلمنٹ کے اسپیکر کا عہدہ اہل سنت جماعتوں کے پاس ہوتا ہے تاہم اس مرتبہ کے سیاسی اختلاف نے حکومت کی تشکیل کے عمل کو بہت لمبا کردیا ہے۔ 

مصطفی الکاظمی کی حکومت معمول کے امور آگے بڑھا رہی ہے جبکہ سیاسی تعطل اور رواں مالی سال کے بجٹ کی عدم منظوری نے بنیادی نوعیت کے منصوبوں اور معاشی اصلاحات کو متاثر کیا ہے۔عراقی عوام کا کہنا ہے کہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں غیر معمولی اضافے کے باوجود سہولیات کی فراہمی اور معاشی صورتحال بدتر ہوگئی ہے۔

در ایں اثنا حالیہ سیاسی تعطل سے نکلنے کے حوالے سے ایک اہم موڑ اس وقت آیا کہ جب وزارت عظمی کی کرسی کے لئے ۵ نامزد امیدواروں کے نام سامنے آئے تاہم ان تمام افراد نے یکے بعد دیگرے مقابلے سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا اور محمد شیاع السودانی کا نام تمام گروہوں کے متفقہ امیدوار کے طور پر منظر عام پر آیا۔

بغداد میں پیدا ہونے والے محمد شیاع السودانی نوری المالکی کی حکومت میں انسانی حقوق کے وزیر اور حیدر العبادی کی حکومت میں وزیر محنت اور وزیر صنعت رہ چکے ہیں جبکہ ان کی پروفائل میں صوبہ میسان کے گورنر کے عہدے پر کام بھی درج ہے۔ 

اب السودانی کو وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچنے کے لئے عراقی پارلمنٹ سے اعتماد کا ووٹ بھی لینا ہوگا۔ 

بظاہر السودانی کی نامزدگی کے ساتھ سیاسی تعطل ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا۔ گزشتہ بدھ کے روز مقتدی صدر کے ہزاروں حامی پارلمنٹ کی عمارت میں داخل ہوگئے اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف نعرہ بازی شروع کردی اور محمد شیاع السودانی کی وزارت عظمی کے لئے نامزدگی کے خلاف نعرے لگائے۔  

مقتدی صدر کی جماعت نے حکومت کی تشکیل میں ناکامی پر عراق کے سیاسی عمل سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تاہم یہ اعلان بھی کیا اپنے رد عمل کو رائے عامہ اور احتجاجات کے ذریعے جاری رکھیں گے۔ اگرچہ مقتدی صدر کے حامیوں نے متفقہ نامزد امیدوار کی مخالفت کا اظہار کیا لیکن ان کی جماعت کے رہنماوں نے اعلان کیا کہ اس نامزد امیدوار کی تبدیلی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ 

اس کے بعد دوسری بڑی شیعہ جماعت کے سربراہ سید عمار الحکیم نے اپنے حامیوں کے ایک جلسے سے خطاب کرتے عراق میں فسادات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عراقی قوم کے مختلف گروہوں کے درمیان فسادات کی بہت کوششیں کی گئی ہیں اور عراق کی سب سے بڑی سماجی اکائی کے اندر بھی پھوٹ ڈالنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ یہ تمام مذموم کوششیں عراق اور عراقی قوم کو نقصان پہنچانے کے لئے ہیں۔ ہم ہاتھ باندھے بیٹھے نہیں رہیں گے کیونکہ عراق کی وحدت ہماری سرخ لکیر ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے سابقہ تنازعات کو پس پشت رکھ کر تمام عراقی قوتوں کو جامع مذاکرات کی دعوت دی۔ 

عمار الحکیم کے خطاب کے بعد مقتدی صدر کے حامیوں نے دوسری جماعتوں کے کچھ دفتر بند کروا دیئے جبکہ بصرہ میں عمار الحکیم کی جماعت سے وابستہ ٹی وی چینل فرات کا دفتر بھی بند کروادیا۔ مقتدی صدر کے حامیوں کی جانب سے مخالفین کے دفتروں کی بندش کا سلسلہ بغداد سمیت کچھ دوسرے صوبوں تک پھیل گیا۔ 

ہفتے کے روز صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب مقتدی صدر کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد بغداد کے سبز علاقے میں داخل ہوگئی اور داخلی راستوں کی تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے سیکورٹی فورسز کے آمنے سامنے آگئے جس میں کچھ افراد زخمی بھی ہوئے۔ مظاہرین پارلمنٹ ہاوس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور اعلان کیا کہ پارلمنٹ کی عمارت کے اندر غیر معینہ مدت تک ہڑتال کر کے بیٹھے رہیں گے۔

عراق کی صورتحال کے بارے میں ممکنہ طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عراقیوں کو سمجھداری سے کام لیتے ہوئے تناو اور کشیدگی سے اجتناب کرنا ہوگا۔ سڑکوں پر نکلنا عراق کی بے تحاشا مشکلات میں سے کسی ایک مشکل کو بھی حل نہیں کرسکتا۔ عراقی کو نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی عراق پر کمین لگائے بیٹھے ہیں جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا عراق میں تخریبی کردار مکمل طور پر سب کے سامنے ہے۔ ان کا مقصد عراق کے سیاسی نظام کو سرنگوں کرنا ہے جبکہ مرجعیت کی برکت سے اور عوام کے شعور و بصیرت کی بدولت اب تک ان کے تخریبی عزائم اور منصوبوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ 

امریکی جاسوسی ادارے اور خلیجی ریاستیں غیر مستقیم طور پر عراق میں فسادات اور کشیدگی چاہتے ہیں۔ عراق کے دشمن زرد صحافت اور میڈیا کے ذریعے فتنہ انگیزی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ سیاسی اختلافات طاقت اور دھونس و دھمکی یا کسی بھی پرتشدد طریقے سے حل نہیں ہوسکتے بلکہ عراقی گروہوں کو تعمیری گفتگو کو اپنانا ہوگا۔ عوام کو سڑکوں تک کھینچنا عراق کی سلامتی اور استحکام کو خطرے سے دوچار کرے گا اور یہ کام امریکی جاسوسی اداروں اور کچھ علاقائی ملکوں کی ایجنسیز کا کام آسان کردے گا۔