مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرجع تقلید آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی نے ماہ محرم الحرام کی آمد اور سید الشہدا امام حسین علیہ اسلام کی عزاداری کے ایام کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا جس میں خطبا، ذاکرین، نوحہ خوانوں اور عزادارن امام حسین علیہ السلام کو اہم نصیحتیں اور اپنی سفارشات بیان کیں۔
پیغام کا مکمل متن درج ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
السلام علیک یا اباعبدالله وعلی الأرواح التی حلّت بفنائک
ماہ محرم، سرور و سالار شہیداں ﴿ع﴾ کی عزاداری کا مہینہ عالم تشیع بلکہ عالم اسلام کے عظیم سرمایوں میں سے ایک ہے۔ وہ مہینہ کہ جس میں مسلمانوں کو چاہئے عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کی عنایات کے سائے میں ستمگروں کی محکومیت اور غلامی سے نجات کا راستہ تلاش کریں اور «هیهات منا الذلة» کا شعار اپناتے ہوئے تقوا، حریت، جواں مردی، شجاعت اور عدل و انصاف کی راہ و رسم سیکھیں۔
اس وقت اور اس غم بار اور جاں سوز مہینے کی آمد پر لازم ہے کہ تمام عزیزوں کی خدمت میں چند نکات کی یاددہانی کراوں:
اول: لازمی ہے کہ حفظان صحت کے اصول کا خیال رکھتے ہوئے حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری کی رسومات ہر سال سے زیادہ شکوہ و عظمت کے ساتھ اور حسینی ولولے اور شعور کے ساتھ منعقد کی جائیں۔ امام علیہ السلام کے عاشقوں کا فرد فرد اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق عاشورائی ثقافت کی برپائی کے لئے خدمات انجام دے۔
دوئم: سزاوار و شائستہ ہے کہ قابل احترام خطبا عاشورا کے تاریخی واقعے کے بیان پر اکتفا نہ کریں بلکہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی جڑیں، عوامل، نتائج اور ثمرات کو بیان کرتے ہوئے خاص طور نوجوانوں کو اس عظیم حادثے کے اعلیٰ اور مقدس اہداف سے روشناس کرائیں کہ جو در حقیقت حق کا باطل کے مقابلے میں برسرپیکار ہونا ہے۔
سوئم: قابل احترام اور با اخلاص ذاکرین اور نوحہ خوانوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں سید الشہدا اور دیگر مظلوم شہدائے کربلا کی عظیم رزم آرائیوں اور شجاعتوں کے بیان اور امام زمانہ عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے توسل کے ساتھ ساتھ لوگوں کے علم و شعور میں اضافہ کریں اور توہین آمیز یا غلو آمیز اشعار سے اجتناب کریں اور غیرمناسب انداز اور دھنیں استعمال نہ کریں اور ممکنہ انحرافات کا راستہ روکیں۔
چہارم: محترم عزاداران اور عاشقینِ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام سزاوار ہے کہ مذہب کی توہین کا سبب بننے والے کاموں سے قطعاً دوری اختیار کریں تا کہ مغرضین اور دشمنانِ اہل بیت علیہم السلام کو کوئی بہانہ فراہم نہ کریں۔
پنجم: مذہبی انجمنوں، مجالس کمیٹیوں کے ذمہ داران {اور بانیان} کے لئے لازم ہے کہ اسراف سے اجتناب کرتے ہوئے مجالس اور عزائے حسینی کی پر خیر برکت رسومات کو سادہ انداز میں منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ نیت میں اخلاص کو ہر چیز پر ترجیح دیں اور نماز کے اوقات کا احترام کریں تا کہ فضل الٰہی اور امام علیہ السلام کی عنایات خاصہ ان کے شامل حال ہوں۔
ششم:بے شک قیام امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم امر بالمروف اور نہی عن المنکر کے دو فراموش شدہ فریضے اور اسی طرح اسلامی تعلیم و تربیت ہے کہ جس کے حصول کی راہ میں امام علیہ السلام نے اپنا اور اپنے اصحاب کا پاکیزہ خون نثار کیا۔ اگر یہ اقدار اسلامی ادب کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اور کسی بھی قسم کی توہین کے بغیر معاشرے کی سطح پر ایک عمومی رویے اور ثقافت کی صورت اختیار کرلے تو بہت ساری اخلاقی اور سماجی برائیاں جیسے کہ بے پردگی اور بے حیائی وغیرہ کی چارہ جوئی ہوسکے گی۔ البتہ مجالس عزاداری کے فرائض میں سے ایک یہی مسائل و مشکلات ایجاد کرنے کے لئے دشمنوں کے ناپاک منصوبوں اور زہر افشانیوں کو بے اثر کرنا ہے۔
هفتم: اگرچہ معاشی بے سروسامانی اور بے لگام مہنگائی شدت کے ساتھ عوام کو رنج و درد میں مبتلا کر رہی ہے اور جس طرح ہم مکرراً یاد دہانی کر رہے ہیں ضروری ہے کہ متعلقہ حکام عوام کی معیشت کی بہتری، مہنگائی اور افراط زر کو قابو کرنے کے لئے دوچنداں کوشش کریں، تاہم لازم ہے یہ مسائل عزاداری حسینی کے جوش و ولولے پر اثر انداز ہوکر اس کی حرارت کو کم نہ کرے۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ تمام لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ان رسومات کے شکوہ و عظمت کو مزید بڑھائیں۔
آخر میں سید و سالار شہیداں ﴿ع﴾ کے عزاداروں اور عقیدت مندوں سے خواہاں ہوں کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم ارواحنا لہ الفداء کی سلامتی اور تعجیل فرج کے لئے اور اسی طرح اسلامی معاشروں کی گرفتاریوں اور مشکلات کے حل کے لئے دستِ دعا بلند کریں اور سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ عزاداری اور سید الشہدا اور شہدائے کربلا کے مصائب پر بہنے والے آنسوں کی برکت سے امت اسلامی اور خاص طور پر عوام مؤمنین کو خیر و برکت اور اپنی توفیقات خاصہ عنایت فرمائے۔