امام محمد تقیؑ کا لوگوں سے رابطہ وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا تھا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرقے بہت سرگرم تھے اسی وجہ سے آپ اپنے ماننے والوں کو ان مذاہب کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔

اسم گرامی: محمد
القاب: تقی، جواد ، جواد الائمہ، ابن الرضا، تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل،مرتضی اور منتجَب 
والد ماجد کا نام:علی بن موسی الرضا ؑ
والدہ ماجدہ کا نام:سبیکہ نوبیہ
ولادت: 195 ہجری۔ مدینہ منورہ
عمر مبارک:   25 سال

شہادت:220ہجری ۔ بغداد

مختصر سوانح حیات اور کارنامے:
امام محمد تقی ؑ شیعہ امامیہ اثناعشریہ کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔ آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ ائمہؑ میں آپ سب سے کم عمر ی میں شہادت پر فائز ہوئے ہیں۔بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب آپ کی امامت میں تردید کرتے ہوئے عبدالله بن موسی کی امامت کے قائل ہوئے اور بعض دیگر افراد واقفیہ سے ملحق ہوگئے۔ البتہ اکثریت نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔
امام محمد تقیؑ کا لوگوں سے رابطہ وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا تھا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرقے بہت سرگرم تھے اسی وجہ سے آپ اپنے ماننے والوں کو ان مذاہب کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔
دوسرے مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کے ہاتھ کاٹنے اور احکام حج کے بارے میں مناظرہ، آپ کے معروف مناظرے ہیں۔

نصوص امامت:
شیعہ عقیدہ کے مطابق امام فقط سابق امام کی نص سے تعیین ہوتا ہے۔یعنی ہر امام کو چاہئے کہ وہ واضح الفاط میں اپنے بعد کے امام کو معین کرے۔ امام رضا ؑ نے متعدد موارد میں امام محمد تقی ؑکی امامت کا اعلان اپنے اصحاب کے سامنے فرمایا تھا۔ کتاب الکافی،کتاب الارشاد،اعلام الوری اور بحار الانوار جیسی  کتب میں امام محمد تقی ؑ کی امامت کے سلسلے میں مستقل باب موجود ہے۔ ان میں بالترتیب 14، 11، 9، 26 روایات اس بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ منجملہ ان روایات میں ایک روایت میں ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام تقیؑ) کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے۔ یا ایک روایت میں آپ نے فرمایا: یہ ابو جعفر ہیں جنہیں میں نے اپنا جانشین قرار دیا ہے اور میں نے عہدہ امامت ان کے سپرد کیا ہے۔

امام محمد تقی ؑ کی احادیث: 
امام جوادؑ پچیس سال کی عمر میں جام شہادت نوش کرگئے اور پھر آپؑ کو اسی مختصر زندگی میں بھی حکمرانوں کی کڑی نگرانی اور دباؤ کا سامنا رہا لہذا آپؑ کو شیعہ احکام اور عقائد کی ترویج کے لئے مناسب مواقع نہ ملے؛ لیکن آپؑ نے دباؤ اور گھٹن کے سخت حالات میں بھی آپؑ نے شاگردوں کی تربیت، فقہ، عقائد، تفسیر، دعا اور مناجات جیسے موضوعات کے بارے میں احادیث کے بیان کا سلسلہ جاری رکھا۔ جو کچھ اس دور سے ہم تک پہنچا ہے مختلف اسلامی موضوعات میں 250 حدیثوں کا مجموعہ ہے۔آپ ؑ سے منقول بعض احادیث یوں ہیں:
1۔ الأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىُ عَنِ الْمُنْكَرِ خَلْقانِ مِنْ خَلْقِ اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ، فَمْن نَصَرَهُما أعَزَّهُ اللّهُ، وَمَنْ خَذَلَهُما خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ترجمہ:امر بالمعروف اور نہى عن المنكر خدائے عزّوجلّ کی دو مخلوقات ہیں پس جو ان دو کی مدد کرتا ہے خداوند متعال انہیں عزت و عظمت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بے یار و مددگار چھوڑتا ہے خداوند متعال ان کو [دنیا اور آخرت میں] بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔
2۔ ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الإنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَ الإنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍ ترجمہ: تین خصلتیں محبت کو کھینچ لیتی ہیں (اور لوگ ان خصلتوں کے مالک افراد سے محبت کرتے ہیں): لوگوں کے ساتھ معاشرت میں انصاف کی راہ پر گامزن رہنا، ان کے مسائل و مشکلات میں ان سے ہمدردی کرنا اور قلب سلیم کی جانب رجوع کرکے معنویات اور نیک اعمال کی طرف توجہ دینا۔
3۔ مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْقَبْرِ وَقَرَءَ: ((إنّاأنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِالْقَدْرِ)) سَبْعَ مَرّاتٍ، أمِنَ مِنَ الْفَزَعَ الأكْبَرِ ترجمہ: جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی قبر کی زیارت کرے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور اپنا ہاتھ قبر پر رکھے اور سات مرتبہ سورہ قدر (انا انزلنہ...) کی تلاوت کرے وہ قیامت کے عظیم خوف و ہراس اور سختیوں سے محفوظ رہے گا۔

امام محمد تقی ؑ کے مشہور اصحاب:

شاہ عبد العظیم حسنی، احمد بن ابی نصر بزنطی، حسن بن سعید اہوازی، احمد بن محمد برقی و ابراہیم بن ہاشم آپ کے مشہور اصحاب میں سے ہیں۔

امام محمد تقی ؑ کے بارے میں مختلف علماء کے تاثرات:
مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں مددگار و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر آپؑ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپؑ کی علمی شخصیت کو ممتاز شمار کیا ہے۔ نمونے کے طور پر یہاں چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال پیش کئے گئے ہیں:
سبط ابن جوزی: امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔
ابن حجر ہیتمی: مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔
فتال نیشابوری: مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
جاحظ عثمان معتزلی: جاحظ کی وجہ شہرت خاندان علیؑ ساتھ اس کی مخالفت کی وجہ سے تھی لیکن اس کے باوجود اس نے امام جوادؑ کو دس ممتاز طالبیوں کے زمرے میں قرار دیا ہے اور لکھا ہے: "وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں"۔

لیبلز