مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز بدھ)پارلیمنٹ کے نویں مرحلے میں قوم کے منتحب نمائندوں سے ملاقات میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کو اپنے اہم بنیادی وظائف و ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے ساتھ ایک زندہ پارلیمنٹ کے متحرک اور بانشاط معیاروں پر اترنے کے ساتھ مختلف سیاسی، اخلاقی اور معاشی شعبوں میں بھی ایک سالم اور بے عیب پارلیمنٹ ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذمہ داری کے احساس، مخلصانہ نیت، اللہ تعالی پر توکل اور خداوند متعال کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کو پارلیمنٹ اوردیگر اداروں کی کوششوں کے کامیاب ہونے کی اصلی اور بنیادی شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر یہ نظریہ اور یہ جذبہ حکمفرما ہوگیا تو اللہ تعالی کی رحمت اور نصرت کے ساتھ تمام مشکلات کو حل کرنے کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کی لایزال طاقت اور قدرپر اعتماد و توکل کو اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت اور ترقی کی رمز اور کلید قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام نےاس آشفتہ مادی دنیا میں الہی اور انسانی اقدار کے دفاع کے لئے قیام کیا ہے اور پارلیمنٹ کے نمائندوں کو چاہیے کہ وہ اس گہرے اور عمیق راز کو درک کرنے کے ساتھ اپنی کامیابی کے حقیقی حصول کے لئے اللہ تعالی کے ساتھ اپنا رابطہ قوی اور مضبوط بنائیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تسلط پسند دشمن طاقتوں کی طرف سے اسلامی نظام کے ساتھ دشمنی کو ان کی تسلط پسندانہ ذات اور عادت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض لوگ ادھر ادھر یہ کہتے سنائی دیتےہیں کہ دنیا کو نظام کے مد مقابل قرار نہ دیں لیکن ان کی یہ بات غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہے کیونکہ عوامی دینی اور اسلامی حکومت کے قیام کی وجہ سے قدرتی اور طبیعی طور پرعالمی فرعونی طاقتیں اس قوم اور اس نظام کے مد مقابل کھڑی ہوگئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پارلیمنٹ کو اسلامی نظام کا ایک اہم رکن قراردیا اور پارلیمنٹ کی زندہ اور سالم ہونے کی دو اہم خصوصیات کے بارے میں تشریح فرمائی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: نامناسب و غیر منظم قوانین کی تدوین کے ساتھ غیر فعال اور غیر متحرک پارلیمنٹ ایک ناقص پارلیمنٹ ہے اور نمائندوں کو چاہیے کہ وہ متحرک ، با نشاط اور زندہ پارلیمنٹ کے معیاروں کو عملی جامہ پہنانے کی تلاش و کوشش کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے بنیادی وظائف پر عمل یعنی اچھے اور مطلوب قوانین کی تدوین اور صحیح اور درست نظارت و نگرانی کو پارلیمنٹ کے زندہ اور متحرک ہونے کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: نویں پارلیمنٹ کے نمائندوں کو ایک اچھے قانون کے معیاروں اور صحیح نظارت و نگرانی کے معیاروں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وظائف پر عمل کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں غلط نیتوں پر مبنی نگرانی و نظارت ، جانبدارانہ و جانبداری کے خلاف نگرانی نیز سطحی نگرانی کو منجملہ غلط اور نادرست نگرانی قراردیتے ہوئے فرمایا: اس قسم کے امور سے پتہ چل جاتا ہے کہ پارلیمنٹ حقیقی معنی میں زندہ اور متحرک پارلیمنٹ نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ اور کمیشنوں میں نمائندوں کی بھر پور شرکت کو پارلیمنٹ کے زندہ ہونے کی دوسری علامت قراردیتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ اور کمیشنوں کے اجلاس میں نمائندوں کی غیر منظم اور غیر مرتب شرکت بہت بڑی مشکل ہے اور نویں پارلیمنٹ کو حقیقت میں اس مشکل کو برطرف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ملک کی سیاسی فضا، علاقائي اورعالمی سطح پر فعال و سرگرم شرکت کو پارلیمنٹ کے زندہ اور فعال ہونے کے لئے ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ ملک کی طویل پالیسیوں ، رائے عامہ اور انقلاب اسلامی کا مظہر ہے اور اسے ملکی ، علاقائي اور عالمی مسائل و واقعات کے بارے میں مشخص مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نےعلاقہ کےعمیق حالات وواقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج علاقہ میں عظیم شور و غل برپا ہے یہ علاقہ دنیا کا دل شمار ہوتا ہے جواس وقت عجیب و غریب حالات سے دوچار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر پارلیمنٹ کے نمائندے علاقہ کے حالات کے بارے میں مناسب اور بر وقت مؤقف اختیار کریں گے تو اس کاعلاقائی قوموں اور علاقہ کے حالات میں اثر گزار ممالک پر یقینی طور پر گہرا اثرمرتب ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کی دوسری خصوصیت یعنی اس کے سالم ہونے کے بارے میں تشریح فرمائی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ اور عوام کے منتحب تمام نمائندوں کے لئے سیاسی، اخلاقی اور مالی اعتبار سے سلامتی کو مکمل طور پرضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر پارلیمنٹ میں انقلاب کے بعض اصولوں سے انحراف کا معمولی رجحان بھی پیدا ہوجائے تو یہ پارلیمنٹ کی سیاسی عدم سلامتی کا مظہر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے احساس ذمہ داری پر عدم توجہ اور مالی مسائل کے بارے میں لاپرواہی کو پارلیمنٹ کے ناسالم ہونے کی دوسری علامت قراردیتے ہوئے فرمایا: نویں پارلمینٹ کے نمائندوں اور سربراہ کمیٹی کو غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے سلسلے میں نمونہ عمل بننا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ پارلیمانی نمائندوں میں ایسے افراد کی تعداد کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں اچھی طرح احتیاط اور مراقبت کرتے ہیں اوران کے اس قابل تعریف عمل پر ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ پر نگرانی کے سلسلے میں اپنی چند برس پہلے کی تاکید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: البتہ اس کے متعلق قانون بھی منظور ہوا ہے اور اس سلسلے میں ضروری ہے کہ نمائندے اپنی نظارت اور دیگر نمائندوں پر نظارت رکھ کر پارلیمنٹ کی حفاظت کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسروں کی عزت و آبرو ملحوظ رکھنے کوپارلیمنٹ کی سلامتی کی ایک اہم علامت قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے منتخب نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ اس بات پر توجہ رکھیں کہ آپ قومی اسپیکر پر بولتے ہیں اور اس موقع پر آپ کو دوسروں کی عزت و آبرو کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور ایسے الزامات بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جو ثابت نہیں ہوئے ہیں اور دوسروں کے شخصی اور ذاتی مسائل بیان کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں پارلیمانی نمائندے یا حکومتی نمائندے کی تقریر کے دوران بعض نمائندوں کی طرف سے شور و غل مچانے پربھی شدید تنقید کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پارلیمنٹ حکیمانہ اور مدبرانہ گفتگو کی جگہ ہے اور دوسروں کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی اور شور و غل مچانا اس کی شان کے بالکل منافی ہے اس غلط اور بری عادت کا پارلیمنٹ سے خاتمہ بہت ضروری ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے استقلال کو بہت ہی اہم مسئلہ اور قوہ مقننہ کی سلامتی کی علامت قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تمام حکومتوں اور پارلیمانی دوروں کے دوران یہ سفارش کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کے استقلال کے نام پر حکومت کے ہر معاملے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور اگر پارلیمنٹ کی نظر اس معاملے میں مخالف ہے تو وہ غیر مفید رفتار اختیار کرنے کے بجائے اس سلسلے میں قانون وضع کرسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہمدلی اور اتحاد کو بہت ہی اہم اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اتحاد کا مطلب افکار کی یکسانیت اور اتحاد نہیں ہے اور اپنے اختلافی نظریات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن نظریاتی اختلاف کے باوجود حکام کا ہاتھ ایکدوسرے کے ہاتھ میں رہنا چاہیے اور سب کو ملک کی ترقی و پیشرفت اور انقلاب اسلامی کی اہداف کی جانب گامزن رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تفرقہ اور اختلاف کو ضعف و کمزوری قراردیتے ہوئے فرمایا: اختلاف نظرکو حل کرنے کے ادارے بھی مشخص ہیں اور قانون کی طرف رجوع کرنے یا گارڈین کونسل کے ذریعہ سب کی ذمہ داری مشخص ہوجاتی ہے بہر حال حکام کے درمیان اتحاد اور ہمدلی بہت ضروری اور اہم چیز ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: البتہ دو تین فریق سبھی لفظی طور پراختلافی بات کی مذمت کرتے ہیں لیکن عمل میں اختلاف کے نمونے کبھی کبھی دکھائی دیتے ہیں اور سبھی حکام کو اپنے اداروں کے اندر اور دیگر اداروں کے ساتھ ہمدلی ، ہمدردی اور اتحاد کی حفاظت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے اسپیکر جناب لاریجانی کے خطاب پر شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: قوی امید ہے کہ پارلیمنٹ استقلال، فکری آزادی، ملک کی مصلحتوں کی رعایت، دشمن کے مد مقابل احساس شجاعت اور پرامید مستقبل کے پیش نظر اپنی فعالیتوں اور سرگرمیوں کا منصوبہ و پروگرام مرتب کرےگی
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے مستقبل کو درخشاں ، تابناک اورخوشخبری دینے والا قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کی مدد اور نصرت کے ساتھ ملک کی عمومی رفتار و حرکت دینی اور اسلامی فکر و سمت پر استوار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امید کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے یہ عشرہ جو عشرہ پیشرفت و عدالت کے نام سے موسوم ہے اس عشرے میں ایران نمایاں ترقی اور پیشرفت حاصل کرےگآ اور اس عشرے کے اختتام پر ملک میں عدل و انصاف عملی طور پر محقق ہوجانا چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل پارلیمنٹ کے اسپیکر جناب ڈاکٹر لاریجانی نے ایران میں قانون گزاری کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ کیا اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ملک کی پارلیمنٹ میں قانون گزاری کے دور کو درخشاں دور قراردیتے ہوئے کہا: اس دور میں قابل توجہ قوانین دینی اور آزادی کے پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے منظور کئے گئے ہیں جو ملک کی آگے کی سمت حرکت میں اہم اور نمایاں کردار کے حامل ہیں۔لاریجانی نے قومی مفادات کے لئے نقشہ راہ کی تدوین ، ملک میں آرام و سکون کی فضا قائم کرنے پر تاکید کی اور ملک کے واقعات پر دائمی نگرانی اور قومی حقوق کی حفاظت کو پارلیمنٹ کے اہم وظائف میں قراردیا۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر نے اس دور کے پارلیمانی نمائندوں کی کمی اور کیفی ترکیب کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی کے اصولوں کا دفاع اور قومی حقوق کی حفاظت پارلیمنٹ کے نمائندوں کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں۔
آپ کا تبصرہ