مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:غزہ میں حماس اور غاصب صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی پر عملدرامد ہوتے ہی وہاں کی حکمرانی کے بارے میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد فلسطینی خود مختار انتظامیہ کو غزہ میں اقتدار سونپا جائے، لیکن حماس کی مقبولیت فلسطینی عوام میں اب بھی زیادہ ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے آثار کے ساتھ ہی اس کے مستقبل کے انتظامات پر قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔ اس سے پہلے تین اہم نظریات زیر بحث تھے: شروع میں صہیونی حکام کی حکمت عملی "نہ فتح، نہ حماس" پر مبنی تھی، جس کے تحت وہ یا تو غزہ کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے یا اسے تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ امریکی منصوبے ڈیل آف سینچری کے تحت فلسطینی مقاومت کو ختم کرکے ایک معاشی علاقے میں تبدیل کرنا تھا۔
یورپی یونین کی تجویز میں بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ فلسطینی خود مختار انتظامیہ کو حماس کے متبادل کے طور پر اقتدار دینے کی حمایت شامل تھی۔ اس منصوبے کو پیرس اور ریاض کی حمایت حاصل تھی۔
جبکہ فلسطینی خود مختار انتظامیہ کو حماس کی جگہ لانا امریکی منصوبہ تھا جس کے تحت غزہ کے شہری اور انتظامی معاملات بین الاقوامی فورسز کے تعاون سے چلایا جانا طے پایا تھا۔
اگرچہ غزہ کے مستقبل پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں تاہم امریکی ذرائع کا دعوی ہے کہ صدر بائیڈن کا منصوبہ سب سے زیادہ عملی ہوسکتا ہے۔ 14 جنوری 2025 کو امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن نے اٹلانٹک کونسل میں مشرق وسطی میں جاری تنازعات، خاص طور پر غزہ کی جنگ اور اس کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات پیش کیے۔
بلینکن کے مطابق فلسطینی خودمختار انتظامیہ بین الاقوامی فورسز کے تعاون سے غزہ کے شہری امور کو سنبھالے گی۔ یہ انتظامیہ عوامی ضروریات کی تکمیل، صحت کے نظام کی بحالی، تعلیمی سہولیات، پانی، اور دیگر بنیادی ضروریات کے انتظامات کرے گی۔ سیکورٹی کے معاملات فلسطینی خودمختار فورسز، اسرائیلی فوج اور بین الاقوامی فورسز کے باہمی تعاون سے چلائے جائیں گے۔
بلینکن نے دعوی کیا کہ طوفان الاقصی کے بعد امریکہ اور اسرائیل حماس کو دوبارہ غزہ پر حکمرانی کا موقع نہیں دیں گے۔
محمد دحلان اور "نہ فتح، نہ حماس" کا خواب
غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کے لیے عارضی بندرگاہ کے منصوبے کی ناکامی سے پہلے محمد دحلان غزہ کے انتظام کے لیے ایک ممکنہ امیدوار سمجھے جارہے تھے۔ تاہم موجودہ حالات میں ان کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ دحلان جو فلسطینی خودمختار انتظامیہ، عرب امارات اور مصر کے قریب سمجھے جاتے ہیں، ماضی میں موساد سے اپنی قربت اور سنی قدامت پسند بلاک کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ترکی کی بلیک لسٹ میں رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں اماراتی اور مغربی میڈیا کی جانب سے دحلان کو نمایاں کرنے کی کوششوں نے اس قیاس کو تقویت دی ہے کہ واشنگٹن اور لندن ممکنہ طور پر ایک مشترکہ منصوبے میں غزہ کا انتظام ان کے حوالے کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
تاہم دحلان نے اکانومسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں غزہ کے انتظام کی ذمہ داری قبول کرنے کی تجویز کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں ایک ٹیکنوکریٹ حکومت ہونی چاہیے جس میں حماس اور فتح دونوں کے افراد شامل ہوں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق اس منصوبے میں ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کے بعد سعودی-اماراتی سیکورٹی فورسز غزہ کی بحالی کے عمل کی نگرانی کریں گی۔
غزہ کے مستقبل کی قیادت کے لیے مختلف شخصیات کے نام زیر غور ہیں، جن میں ٹیکساس یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ سلام فیاض اور حسین الشیخ قابل ذکر ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے معاشیات میں تعلیم حاصل کرنے والے سلام فیاض پہلے فلسطینی خودمختار انتظامیہ کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ وہ ایک ٹیکنوکریٹ رہنما ہیں جنہیں پیرس، واشنگٹن اور تل ابیب کی حمایت حاصل ہے۔ فیاض ان چند فلسطینی رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے طوفان الاقصی کے بعد حماس کے اقدام کی مذمت کی اور اسرائیل سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی ریڈیو نے انہیں غزہ کے ممکنہ منتظم کے طور پر پیش کیا ہے۔
دوسری جانب حسین الشیخ بھی ایک ممکنہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں جو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ وہ 1993 کے اوسلو معاہدے کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی سیاسی کمیٹیوں کے بانی رکن رہے ہیں۔ ریاض کی حمایت کے بل بوتے پر حسین الشیخ کو امید ہے کہ وہ دیگر حریفوں پر سبقت لے کر غزہ کا انتظام سنبھال لیں گے۔ انہوں نے بھی 7 اکتوبر کی کاروائی کی مذمت کی ہے اور صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون پر زور دیتے ہیں۔ حماس ان کو صہیونی آلہ کار قرار دیتی ہے۔
فلسطین کا "نیلس میڈیلا" کون؟
مروان برغوثی کا نام دوسروں سے زیادہ سنا جارہا ہے۔ حماس صہیونی قید سے آزاد ہونے والوں میں برغوثی کا نام شامل کرنے پر زیادہ زور دے رہی ہے۔ ان کی رہائی اور فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کے لئے چنے جانے کے امکانات زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ مروان برغوثی 2004 سے اسرائیل کی قید میں ہیں، جہاں انہیں انتفاضہ اول اور دوم میں سرگرم کردار ادا کرنے اور اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے الزامات پر عمر قید کی سزا دی گئی۔ انہوں نے 1967 کی سرحدوں پر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مختلف فلسطینی گروہوں، بشمول فتح، حماس، اور اسلامی جہاد کے درمیان معاہدوں میں اہم کردار ادا کیا۔
حماس نے حالیہ قیدی تبادلے کے مذاکرات میں برغوثی کی رہائی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی آزادی کے معاہدے میں برغوثی کا نام شامل ہونے کی خبروں نے ان کی سیاسی حیثیت کو مزید تقویت بخشی ہے۔
فلسطینی عوام کی اکثریت محمود عباس کی زیرقیادت فلسطینی اتھارٹی سے ناراض ہے چنانچہ فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے حالیہ سروے میں واضح ہوا، جس میں 90 فیصد شرکاء محمود عباس کی استعفے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مروان برغوثی کو فلسطینی عوام نے سب سے مقبول رہنما قرار دیا ہے۔
اسی وجہ سے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اور ان کی دائیں بازو کی کابینہ مروان برغوثی کی آزادی کے سخت مخالف ہیں۔ برغوثی کی مقبولیت اور فلسطینی اتحاد کے امکانات اسرائیل کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج بن سکتے ہیں، خاص طور پر اگر مغربی کنارے اور غزہ برغوثی کی قیادت میں متحد ہو جائیں۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کی پالیسی فلسطینی علاقوں میں اتحاد کے بجائے تقسیم کو بڑھاوا دینا ہے۔ غرب اردن اور غزہ کی علیحدگی اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹجک مقصد ہے تاکہ فلسطینی عوام متحد ہوکر اسرائیل کے خلاف مضبوط سیاسی یا مزاحمتی محاذ نہ بناسکیں۔ برغوثی نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے مزاحمت اور آزادی کی علامت ہیں بلکہ ان کی قیادت میں فلسطینی علاقوں کے اتحاد کا امکان بھی بڑھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل انہیں آزاد کرنے سے گریزاں ہے، کیونکہ ایک مضبوط اور مقبول قیادت تل ابیب کی تقسیم کی پالیسی کو ناکام بنا سکتی ہے۔
حاصل سخن
فلسطینی اتھارٹی کی ممکنہ واپسی غزہ میں ایک بار پھر متنازعہ ثابت ہو سکتی ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔ 2004 میں اسرائیلی فوج نے غزہ سے انخلا کے بعد انتظامی اختیارات فلسطینی اتھارٹی کو سونپے لیکن حماس اور اسلامی جہاد نے صرف تین سال میں جمہوری عمل کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ سروے رپورٹس کے مطابق حماس اور اس کے رہنما فلسطینی عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ اسی وجہ سے صہیونی حکام کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں:
1۔ اگر اسرائیل غزہ کے عوام کی حمایت کی حامل حماس کے کردار کو تسلیم کرتا ہے تو یہ ایک بڑی سیاسی شکست کے مترادف ہوگا، کیونکہ حماس کی قیادت میں غزہ اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط مزاحمتی علاقہ بن سکتا ہے۔
2. اسرائیل اگر غزہ پر دوبارہ فوجی قبضے کا انتخاب کرتا ہے، تو یہ اقدام شدید انسانی اور مالی نقصانات کا باعث بنے گا۔ یہ فیصلہ اسرائیلی فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔ حماس کے عسکری ونگ کی تیز رفتار بحالی اسرائیلی فوج کے لیے ایک نیا اور مضبوط چیلنج پیدا کرسکتی ہے۔
غزہ کے مستقبل کا فیصلہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں واضح ہوگا۔ اس وقت تک یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سا فریق غزہ کی جنگ زدہ سرزمین کا انتظام سنبھالے گا۔