سونے کے عطیات مسلمان ایرانی خواتین کی پہچان ہیں جو وطن، اسلام اور مظلوموں کی مدد کی خاطر دنیوی مال و دولت کو چھوڑ دیتی ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، گروہ مجلہ: ٹیکسی میں بیٹھ کر ریڈیو سن رہی تھی۔ خبروں کے دوران لبنان اور فلسطین کے مظلومین کے امدادی مہم کے بارے میں خبر پڑھی گئی کہ ایرانی خواتین صہیونی مظالم کا شکار فلسطینی اور لبنانی عوام کے لئے دل کھول کر عطیہ دے رہی ہیں۔ چندہ مہم میں حصہ لینے والے اپنے گھر اور گاڑیوں کے علاوہ سونا اور نقدی بھی جمع کررہے ہیں۔ ٹیکسی کا ڈرائیور ناراض ہوکر بولا کہ ہمارے اپنے ملک میں اتنے فقیر اور غریب ہیں۔ سیستان و بلوچستان کے غریبوں کی کوئی مدد کیوں نہیں کرتا ہے؟ اس کو کہتے ہیں "چراغ تلے اندھیرا" میں نے جواب دینے کے بجائے سکوت میں عافیت سمجھی۔

ایک مرتبہ غزہ میں صہیونی بمباری سے زخمی ہونے والے معصوم کی شکلیں ذہن میں آئیں جس سے میرا تن لرز گیا۔ دوسری طرف اس ایرانی لڑکی کی شکل بھی ذہن میں آئی جو اپنی شادی کے انتظار میں ہے اور لباس عروسی زیب تن کرنے کے لئے دن گن رہی ہے لیکن شادی کے عین موقع پر فلسطینی لڑکیوں کی حالت زار اور تباہی کے مناظر کو مشاہدہ کرتی ہے۔ اس کے بعد اپنی شادی کے تمام لوازمات فلسطینی لڑکیوں کے لئے عطیہ دیتی ہے تاکہ ان کے ہونٹوں پر بھی کچھ مسکراہٹ آجائے۔ اس عورت کی بھی یاد آئی جو فلسطین میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے والوں کو عطیہ دینے کے لئے اپنے شوہر کی یادگار انگوٹھی لائی تھی۔

ان سوچوں کی وجہ سے میرے اندر کی کیفیت مسلسل بدل رہی تھی۔ سونے کے عطیات مسلمان ایرانی خواتین کی پہچان ہیں جو وطن، اسلام اور مظلوموں کی مدد کی خاطر دنیوی مال و دولت کو چھوڑ دیتی ہیں۔ جس طرح آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران خواتین نے مجاہدین اور رزمندگان اسلام میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ پورے ایران میں فلسطین اور لبنان کے عوام کے لئے شروع ہونے والی چندہ مہم میں خواتین بھرپور انداز میں شرکت کررہی ہیں۔

آج مدد کا وقت ہے!!

سارا کی عمر 15 سال ہے۔ اسکول کی وردی میں آکر اپنے والد سے تحفے میں ملنے والی انگوٹھی کو مقاومت کے لئے عطیہ دے رہی ہے۔ یہ انگوٹھی اس کے لئے بہت عزیز تھی کیونکہ گذشتہ ماہ رمضان میں روزے رکھنے کے بعد اس کے بابا نے تحفہ دیا تھا۔ 30 دن سختی برداشت کرنے بعد ملنے والی انگوٹھی کو سارا رہبر معظم کے ایک فرمان پر قربان کررہی تھی۔

کہتے ہیں کہ سونا حادثاتی ایام کے لئے سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ غزہ اور لبنان میں عوام کو درپیش حالات سے زیادہ سخت ایام کب آسکتے ہیں۔ ایرانی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے انہی ایام کے لئے سونا جمع کرکے رکھا ہوا تھا تاکہ فلسطینی اور لبنانی ماؤں اور بہنوں کے زخموں پر کچھ مرہم رکھ سکیں۔ چنانچہ نوجوان لیلی ترکی زبان کے شیرین لہجے میں کہتی ہے کہ مجھ سے جان مانگیں میں تیار ہوں۔ اگرچہ میری کوئی ملازمت نہیں ہے۔

مقاومت کے لئے جو کچھ جمع کرکے رکھا ہے اس میں انگوٹھی، ہار اور چوڑی شامل ہیں۔ اس سیٹ کی قیمت تقریبا دو ارب تومان ہے۔ ایک اعلی ظرف کا انسان ہی اتنا قیمت عطیہ دے سکتا ہے اور ذرہ برابر پریشانی یا پشیمانی کے آثار نہیں ہیں۔

اس زمانے میں جب دنیا بھر خوبصورتی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے حصول کے لئے بڑا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، یہ خواتین سونا جیسے آرائشی لوازمات کو دل کھول کر عطیہ دے رہی ہیں اور اس سے ہاتھ اٹھانے کے لئے مکمل تیار ہیں۔ دشمن کی جانب سے کی جانے والے پروپیگنڈوں سے متاثر ہوئے بغیر اللہ کی راہ میں انفاق کررہی ہیں۔

اقتصاد چاہتے ہیں یا جنگ؟

مرزا محمد تقی خان فراہانی المعروف امیر کبیر ناصرالدین قاجار کے دور میں ایران کے پہلے صدر اعظم تھے۔ اس زمانے میں اصفہان میں توپ بنانے کی ایک فیکٹری تعمیر کی گئی۔ کچھ عرصہ بعد برطانیہ کی جانب سے بندرگاہوں کی بندش اور پابندیوں کی وجہ سے توپوں کی پیداوار کے لیے دھاتوں کے پگھلنے کا مسئلہ پیدا ہوا۔ امیر کبیر نے عوام سے اپیل کی کہ اگر کسی کے گھر میں تانبے کا اضافی برتن ہو تو وہ فیکٹری کو بیچ دیں۔ شہریوں کا جذبہ دیدنی تھا۔

برطانوی اہلکاروں نے شہریوں کو امیر کبیر کے خلاف اتنا ورغلایا تھا کہ وہ ان کے دیگوں پر بھی رحم نہیں کریں گے۔ امیر کبیر بھوک و افلاس میں مبتلا کرکے ملک کو جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ برطانیہ کے پروییگنڈے نے لوگوں پر اثر ڈالا اور وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگیا۔ خام مواد نہ ملنے کی وجہ سے فیکٹری کا یورپی مالک ملک چھوڑ کر چلا گیا اور امیر کبیر کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد برطانیہ نے بوشہر بندرگاہ پر حملہ کیا اور ایران کو دھکمی دی کہ اگر افغانستان، قندھار اور ہرات برطانیہ کے حوالے نہ کرے تو جنوب کی جانب سے پیشقدمی کرتے ہوئے تہران پر بھی قبضہ کیا جائے گا۔ ایران کے پاس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے توپ کے گولے نہیں تھے۔ ایران نے دشمن کی شرط قبول کرلی۔ اس شکست کی بنیادی وجہ برطانوی سامراج کی سازش تھی جس میں لوگوں کو چالاکی کے ساتھ حکومت سے تعاون سے روکا گیا اور جنگ اور اقتصاد کے درمیان تذبذب کے عالم میں چھوڑ دیا گیا۔ برطانیہ نے اپنے مذموم اہداف کے لئے لوگوں کو اقتصاد انتخاب کرنے پر مجبور کیا۔ 

حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔ عوام کے جلد بازی میں کیے گئے فیصلے کے نتیجے میں جنگ مسلط کی گئی اور اس کے بعد اقتصاد بھی نابود کیا گیا۔

آج بھی دشمن کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے ایسا ہی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے جس کا اصلی ہدف عوام کو مقاومت کے مقابلے میں لانا ہے۔