ایرانی خواتین کی جانب سے سونے اور جواہرات کا عطیہ اور رضاکارانہ امداد در حقیقت احساس وظیفہ ہے جس طرح حضرت خدیجہ نے مجاہدین اسلام پر دل کھول کر اپنا مال و دولت خرچ کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، مقاومتی ڈیسک؛ تصور کریں کہ ایک غمگین عورت اپنے شوہر سے گلہ کر رہی ہے: میں نے فلاں عورت کو فلاں محفل میں دیکھا، اس کے ہاتھوں میں کتنی چوڑیاں تھیں۔ اس کے گلے میں کتنا خوبصورت ہار تھا۔ اس کی بالیوں نے سب کی نظریں اپنی طرف کھینچ لی تھیں۔ سب کے سینوں اور ہاتھوں پر زیورات جگمگا رہے تھے لیکن میرے پاس کچھ نہیں تھا، یا میرا سونا سب سے کم تھا۔

شادی کے دن منہ دکھائی میں ملنے والی انگوٹھی، کسی عزیز کی طرف سے دیے جانے والا کڑا یا باپ کی طرف سے ملنے والی سونے کی بالی لڑکیوں اور خواتین کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس کو کھونا اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔

قدیم زمانے میں کہا جاتا تھا کہ سونا خواتین کے لئے سب کچھ ہے، کیونکہ یہ فخر کرنے کا ذریعہ ہے، اور وہ اسے کسی بھی طرح سے نہیں کھونا نہیں چاہتی ہیں۔ سونا انسان کی خوبصورتی نسوانی وقار میں اضافہ کرتا ہے لہذا اس کی عدم موجودگی میں خواتین پریشان ہوتی ہیں۔

ایک اور تصور ہے جو زیادہ حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے اور عام دقیانوسی تصورات کو باطل کرتا ہے۔ ایرانی مسلمان خواتین نے ثابت کیا ہے کہ یہ دقیانوسی تصورات صرف خواتین کے ایک طبقے کے بارے میں درست ہیں۔

تاریخ میں خواتین نے ثابت کیا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت اس قیمتی اثاثوں سے ہاتھ اٹھانے کو تیار ہیں۔ اپنے مال و دولت سے ہاتھ اٹھانا ایرانی خواتین کی امتیاز خصوصیات میں شامل ہے۔ جو عورت ضرورت پڑے نے پر اپنے ہاتھ سے چوڑی اور بالی اتار کر دیتی ہے وہ بڑی قربانی دیتی ہے۔

میرے خیال میں جب ایک سونے اور دیگر قیمتی معدنی پتھر کان سے باہر نکال کر کسی عورت کے جسم پر سجایا جاتا ہے تو در حقیقت وہ عورت اس قیمتی پتھر کو باارزش بناتی ہے۔ وہ عورت اس پتھر کو اپنے جسم کا لازمی حصہ قرار دیتی ہے۔

کیا وجہ ہے کہ ایک عورت آسانی کے ساتھ اپنے قیمتی زیورات سے ہاتھ اٹھاتی ہے؟ وہ کون سا عقیدہ ہے جس کی وجہ سے عورت اتنی بڑی قربانی کے لئے تیار ہوجاتی ہے؟

میدان عمل میں خواتین کی تاریخی موجودگی

تاریخ کے مختلف ادوار میں خواتین ہمیشہ مختلف طریقوں سے میدان میں اتری ہیں۔ ایک زمانے میں حضرت فاطمہ کی شکل میں، کسی زمانے میں دشمن کو شرمندہ کرنے میں حضرت زینب کی شکل میں، اور ایک دن حضرت خدیجہ کی طرح مردوں کی مدد کرنے کے لئے کھلے ہاتھ سے مدد کے لئے آگئیں بہت کم لوگ ہیں جو اپنا سارا مال صدقہ میں لگا دیتے ہیں۔

تاریخ گوہ ہے کہ ایک بار غیر ملکی اداروں اور حکومتوں پر انحصار ختم کرنے کے لئے ایران میں بینک قائم کرنے کے لئے اقدام کیا گیا تو خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنا سونا اور زیورات کا عطیہ پیش کرکے قومی منصوبے میں شرکت کی اسی طرح دفاع مقدس کے زمانے میں بھی پابندیوں اور جنگ کی وجہ سے ملکی معیشت بحران کا شکار تھی ایسے میں خواتین محاذ جنگ کے لیے امداد اکٹھی کرنے ہر اول دستے کا کام کرنے لگیں اور اپنے پاس موجود مال و دولت اسلام اور ملک کے دفاع میں خرچ کیا۔

کیا آپ نے سنا ہے کہ ضریح امام حسین علیہ السلام ایرانی خواتین کے عطیہ کردہ سونے سے بنایا گیا تھا؟ ایک ایرانی مسلمان عورت ایک ماں کی حیثیت سے اپنی حاجت طلب کرتی ہے اور اپنا سب کچھ ضریح مبارک میں ڈال دیتی ہے۔ اپنے اس کام کے عوض امام سے کچھ جاحت مانگنے پر وہ مطمئن ہے۔ اگرچہ امام علیہ السلام کو اس عورت کے سونے اور چاندی کی کوئی ضرورت نہیں تاہم اپنے اس عمل کے ذریعے وہ امام علیہ السلام کی توجہ جلب کرتی ہے اور اس کے عوض اپنے سونے سے زیادہ قیمتی چیز حاصل کرتی ہے۔

آج مقاومت کے لئے خواتین کی طرف سے دیے گئے عطیات کی ارزش کم نہیں ہے حالانکہ سونے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اس کے باوجود چونکہ ایرانی مسلمان عورت نے اپنا وظیفہ جان لیا ہے لہذا راہ خدا اور راہ حق میں اپنا سب کچھ لے کر حاضر ہوئی ہے تاکہ لبنان اور فلسطین کے مظلوم عوام اور بے گناہ خواتین اور معصوم بچوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لوٹا سکیں۔

ایک 37 سالہ خاتون تھی۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ مزاحمتی محاذ کی مدد کے لیے ان کی شادی کا سونا عطیہ کیا گیا ہے۔ وہ اپنی کہانی اس طرح بیان کرتی ہے:

میں دوسری لڑکیوں کی طرح اپنی شادی کے لیے زیادہ چیزیں خرچ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے آئینے یا موم بتی، کپڑے، بیگ، یا جوتے، یا شادی کی تقریب کے لئے خریداری نہیں کی. لیکن مجھے سونا پسند تھا۔ یہ میرے لیے اہم تھا۔ میں نے اپنے والد کو بھی بتایا تھا۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ "سونا عورت کی عزت ہے"۔ میں نے یہ بات کئی خواتین رشتہ داروں سے سنی تھی۔

ہم ابھی شادی شدہ نہیں تھے، لیکن عقد نکاح پڑھا جاچکا تھا. میرا شوہر ایک رات ہمارے گھر آیا۔ ہم نے والد کے ساتھ کھانا کھایا۔ رات کے کھانے کے درمیان بابا نے کہا کہ "مجھے کچھ نہیں چاہیے، صرف یہ سونا پسند ہے۔ میرے شوہر نے کہا ٹھیک ہے۔

میں انتظار کر رہی تھی کہ وہ میرے لئے خریدے گا لیکن نہیں خرید سکا۔ شادی کے لئے بہت کم دن رہتے تھے۔ اس نے پہلے ہی مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اچھا سونا دلائے گا۔ میں نے پوچھا آپ کتنا خرچ کرنا چاہتے ہیں؟ آخر میں اس نے کہا 20 ملین۔ میں بہت مطمئن تھی۔ وعدہ کیا ہوا دن آپہنچا۔ ہم زیورات کی دکان پر گئے۔ بیچنے والے نے کچھ سیٹ میرے سامنے رکھ دیے۔ سارے سیٹ خوبصورت تھے۔ میں نے ہر ایک کو پسند کیا۔ میرے شوہر نے بھی کسی سے انکار نہیں کیا۔ آخر کار میں نے اپنی پسند کا سیٹ انتخاب کیا۔ یہ 32 ملین تومان تھا۔ یہ تقریبا دس سال پہلے کی بات ہے۔

جمعہ کی رات تھی۔ ہمیشہ کی طرح ہم ہر ہفتے اپنی ساس کے گھر جانا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے، میں نے راستے میں سونا اس خاتون کے حوالے کر دیا جو اس کو رہبر معظم کے دفتر پہنچانے پر مامور تھی تاکہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں لبنان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے۔ ہم رات کے آخری پہر گھر واپس آئے۔ مجھے خاص قسم کا سکون محسوس ہورہا تھا۔ میرے شوہر نے بذلہ سنجی سے کہا: اتنا سونا دیا۔ سب کھودیا!!! میں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا: انسان بعض اوقات اپنی عقل کھو بیٹھتا ہے۔ میں نے کہا: "کیا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے میرے لیے یہی سونے کا سیٹ خریدتے وقت کیا کہا تھا؟

میں نے اسے سمجھایا: ہم موٹر سائیکل پر بیٹھے تھے۔ میں نے آپ کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا تھا کہ بہت شکریہ آپ نے مجھ پر بہت پیسہ خرچ کیا۔ موسم سہانا تھا۔ بارش کے قطرے آپ کے چہرے پر پڑنے سے آپ مزید نکھر رہے تھے۔ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کے آثار نمایاں تھے۔ میری بات کے جواب میں کہا تھا: بعض اوقات انسان اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ میرا شوہر اس واقعے کو یاد کرکے مسکرایا اور کہا آپ کو بہت مبارک ہو!!!

اس رات میں آدھی صبح تک اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتی رہی۔ مجھے بہت سکون اور اطمینان محسوس ہورہا تھا۔ میں نے اپنے محبوب شوہر سے ملنے والے تحفے کو اس سے زیادہ محبوب امام زمان علیہ السلام کی راہ میں قربان کردیا تھا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں اب سمجھدار ہوگئی ہوں کیونکہ امام زمان عجل اللہ کی خاطر اپنی عزت "سونا" دے چکی ہوں۔