مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ کے خلاف حملوں کو تین سو دن گزر گئے ہیں۔ اس دوران صہیونی حکومت نے ہر غیر قانونی اقدام انجام دیا ہے۔ صہیونی حکومت کے غیر قانونی اور ظالمانہ اقدامات میں سے ایک فلسطینی بے گناہ صحافیوں پر حملہ اور سینکڑوں صحافیوں کی شہادت ہے۔ صحافیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگوں کے دوران خصوصی تحفظ حاصل ہے تاکہ جنگ اور جنگی علاقوں کی صورتحال کے بارے میں دنیا کو آگاہ کریں۔
غزہ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر صہیونی حکومت کے حملے انسانی غلطی نہیں بلکہ جان بوجھ کر صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صہیونی حکومت صحافیوں پر حملے کرکے غزہ کے حالات سے دنیا کو بے خبر رکھنا چاہتی ہے۔ خطرات اور شدید حملوں کے باوجود غزہ کے صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
مہر نیوز انٹرنیشنل ڈیسک نے طوفان الاقصی کے دوران دنیا کی مختلف زبانوں فارسی، انگریزی، اردو، ترکی، عربی اور کردی میں اپنے قارئین کو غزہ کی اصل صورتحال سے باخبر رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے غزہ میں فعال صحافیوں اور مبصرین سے رابطہ کرکے مظلوم فلسطینیوں کا آنکھوں دیکھا حال دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یوم صحافی کے موقع پر مہر نیوز نے غزہ میں مقیم فلسطینی صحافی سے محمود بسام سے گفتگو کی ہے جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
مہر نیوز: طوفان الاقصی سے اب تک 165 صحافی شہید ہوگئے ہیں۔ آپ کی نظر میں صہیونی حکومت صحافیوں کو خصوصی طور پر کیوں ٹارگٹ کررہی ہے؟
محمود بسام: صہیونی حکومت غزہ میں انسانیت سوز مظالم کے آثار مٹانا چاہتی ہے۔ قابض صہیونیوں کی نگاہ میں عام انسانوں، زخمیوں اور صحافیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اسی لئے وہ ہر سامنے آنے والے کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صہیونی غزہ کے حالات دنیا کے سامنے آنے سے ڈرتے ہیں۔ غزہ کے حالات اور صہیونی مظالم سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنا صہیونیوں کے لئے ڈراونا خواب ہے۔
شہید صحافی اسماعیل الحلو شمالی غزہ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دیتے تھے اور الجزیرہ کے ذریعے دنیا کو غزہ کے حالات سے باخبر کرتے تھے۔ فلسطینی علاقوں سے لائیو مناظر نشر کرتے تھے لیکن صہیونی حکومت نے فلسطینیوں کی اس آواز کو خاموش کردیا۔ ہم صحافی ہمیشہ میدان میں رہیں گے اور صہیونی حکومت کے خلاف جنگ میں شہید ہوں گے۔ ہم اپنے وظیفے پر عمل کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ اگرچہ ہمارے پاس حفاظتی آلات کم ہیں پھر بھی ہر جگہ حاضر ہوں گے۔
مہر نیوز: آپ اس وقت رفح میں ہیں۔ وہاں صحافیوں کے لئے کیسے حالات ہیں؟
محمود بسام: میں اس وقت رفح کے مضافات میں ہوں جو کہ خطرناک ترین علاقہ ہے۔ شہر کے مرکز سے اس علاقے تک جنگی خبرنگاری کے دوران میرا ہاتھ زخمی ہوگیا ہے جو ٹھیک ہونے میں بہت عرصہ لگا۔ اس وقت دوبارہ اپنے وظایف انجام دے رہا ہوں۔ ہماری میدان میں موجودگی بہت ضروری ہے تاکہ دنیا کو رفح کے حالات کے بارے میں آگاہی ہوجائے۔ کچھ مدت پہلے صہیونی فورسز نے ان علاقوں سے عقب نشینی کی ہے لیکن اس کے بعد رہائشی مکانات اور گھروں پر حملے شروع کئے ہیں جس میں شہری بھی شکار ہورہے ہیں۔ غزہ میں صحافیوں کے لئے حالات نہایت دشوار ہیں۔ صحافی رفح شہر کے اندر نہیں جاسکتے ہیں۔ تمام خبریں رفح کے باہر سے پہنچائی جارہی ہیں۔ رفح میں داخل ہونے کی کوشش کی صورت میں صہیونی فوج میزائل سے نشانہ بناتی ہے۔
مہر نیوز: گذشتہ دس مہینوں کے دوران غزہ کے صحافیوں نے نہایت بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ صحافیوں نے اپنے عزیزوں کو غزہ میں کھودیا ہے اور ان کی اپنی جانیں بھی خطرے میں ہیں اس کے باوجود کیمرے کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں تاکہ فلسطینی مظلوم عوام کی حالت زار سے دنیا کو باخبر کرسکیں۔ آپ کی نظر میں فلسطینی صحافیوں کی اس جرائت و بہادری کی کیا وجہ ہے؟
محمود بسام: ہماری مقاومت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم حقیقت اور واقعیت کو قبول کرتے ہیں۔ ہمیں حققیت اور واقعیت کو ہی دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ فلسطینی عوام کے غم میں شریک ہونا ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے ہم پر حملوں اور جارحیت کے باوجود ہم اس وظیفے پر عمل کریں گے۔ ہم نے قسم کھائی ہے کہ دنیا کو غزہ کے حقیقی حالات اور واقعیت سے باخبر کریں گے۔
غزہ کے صحافی خود شہید ہوتے ہیں یا کسی شہید کے بارے میں دنیا کو بتاتے ہیں۔ غزہ کے صحافی متحد ہیں اور غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں مل کر دنیا کو باخبر کریں گے۔ ہم اپنے کیمروں کے ساتھ غزہ کے حالات سامنے لائیں گے تاکہ صہیونی حکومت کے جھوٹ اور پروپیگنڈوں کو برملا کرسکیں۔ اس وقت غزہ میں کوئی بیرونی صحافی موجود نہیں ہے۔ ہم غزہ کے صحافی ان کو خبریں فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے گھروں اور مکانات پر حملے ہورہے ہیں۔ میرے گھر کے کئی افراد شہید ہوچکے ہیں۔ میرا بھائی محمد بسام بھی صہیونی میزائل حملے میں شہید ہوگیا ہے وہ میری مدد کرتا تھا۔ ہم فلسطینی قوم کا حصہ ہیں اور صہیونی مظالم کا شکار ہورہے ہیں۔
مہر نیوز: جب شہید اسماعیل ہنیہ پر حملے کی خبر سنی تو کیا احساس ہوا؟ کیا اس خبر سے آپ مایوس ہوئے یا اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھنے کا مزید عزم پیدا ہوا؟
محمود بسام: شہید اسماعیل ہنیہ پر حملہ بہت دردناک تھا۔ وہ بہادر کمانڈر تھے۔ مشکلات میں استقامت دکھاتے تھے۔ ہم ان کو اپنے باپ کی طرح سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں اور نواسوں کو فلسطین پر قربان کردیا تھا۔ ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی شہید ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مشکلات اور سختیوں میں ہمارے ساتھ زندگی کی تھی۔ ان کی تقریر ہمارے لئے امید افزا ہوتی تھی۔
اب اگرچہ اسماعیل ہنیہ شہید ہوگئے ہیں تاہم غزہ میں ہزاروں اسماعیل ہنیہ موجود ہیں۔ شہادت کے بعد اسماعیل ہنیہ جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے ہیں تاہم ان کے افکار زندہ ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد ان کا راستہ جاری رہے گا۔ صہیونی دہشت گرد حکومت مقاومتی رہنماؤں کو شہید کرسکتی ہے لیکن ان کے افکار اور نظریات کو ختم کرنا صہیونی حکومت کے بس سے باہر ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے بعد مزید اچھی قیادت سامنے آئے گی اور غزہ میں ہزاروں اسماعیل ہنیہ پیدا ہوں گے۔ ماضی میں بھی ہم نے شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور فتحی شقاق جیسے رہنماؤں کو کھودیا لیکن دوسروں نے ان کی راہ جاری رکھی۔
مہر نیوز: مہر نیوز اور دیگر ایجنسیوں کے صحافیوں نے بیرونی دنیا میں رہتے ہوئے غزہ کے عوام کی بہادری اور استقامت کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنے کی کوشش کی اور کررہے ہیں اور یہ سلسلہ فلسطین کی آزادی تک جاری رہے گا۔ آپ بھی غزہ کے صحافیوں کی نمائندگی میں کوئی خاص نکتہ ہے تو بیان کریں۔
محمود بسام: ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی میڈیا غزہ کے حقیقی حالات سے دنیا کو باخبر کرتا رہے گا۔ ہمیں کامیابی ملنے تک اپنی پالیسی کو جاری رکھنا چاہئے۔ اللہ کے اذن سے ہماری کامیابی نزدیک ہے۔ یہ جنگ بالاخر ختم ہوکر رہے گی۔ ہمیں فلسطین کو عالمی سطح پر فراموش ہونے سے بچانا چاہئے۔ فلسطین ختم نہیں ہوگا بلکہ دنیا میں زندہ رہے گا۔ ہمیں امید ہے کہ آپ دنیا میں فلسطین کی آواز بنیں گے اور غزہ میں ہونے والے واقعات سے دنیا کو آگاہ کرتے رہیں گے۔ وہاں کے عوام کی حالت زار اور صہیونی حکومت کے مقابلے میں ان کی استقامت کے بارے میں بتائیں گے۔
غزہ کے شمالی علاقوں میں عوام انتہائی بہادری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ان کا عزم کبھی متزلزل نہیں ہوگا۔ مشرق وسطی کے بعض ذرائع ابلاغ کے پرپیگنڈوں کے برعکس فلسطینی غزہ چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ اگرچہ غزہ میں ہمارے لئے حالات نہایت سخت ہیں لیکن پوری بہادری اور استقامت کے ساتھ صہیونی حکومت کا مقابلہ کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی میڈیا غزہ کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جنگ کی صحیح خبریں دنیا تک پہنچائے گا۔