مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ جب رہبر معظم صدر تھے، کسی پروگرام میں شرکت کے لئے صدر ہاوس سے باہر چلے گئے۔ سفر کے دوران گاڑی کے نزدیک شور کی آواز آئی۔ آپ کے محافظین شور کررہے تھے۔ کئی افراد کسی نوجوان کے گرد جمع تھے۔ وہ نوجوان کہہ رہا تھا کہ مجھے صدر مملکت سے ملنا ہے۔
رہبر معظم نے قریب کھڑے فوجی اہلکار سے پوچھا: کیا بات ہے؟ یہ کون ہے؟ فوجی اہلکار نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں۔ یہاں کیسے پہنچا ہے؟ جب فوجی اہلکار نے دیکھا کہ صدر خود چل کر مجمع کی طرف جارہے ہیں تو تیزی سے آگے بڑھا اور کہا جناب عالی! رکیے۔ میں جاکر پتہ کرتا ہوں اس کے بعد اپنے ساتھی سے کہا کہ صدر کا خیال رکھیں اور خود مجمع کی طرف چلاگیا۔
تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور کہا جناب عالی! ایک نوجوان ہے جو اردبیل سے آیا ہے اور آپ سے ضروری کام ہے۔ اصرار کررہا ہے کہ مجھے آغا خامنہ ای سے ملنا ہے اب کہہ رہا ہے کہ مجھے ان سے بات بھی کرنی ہے۔ رہبر معظم نے کہا ان کو آگے آنے دیں اور مجھ سے بات کرنے دیں۔
کچھ دیر بعد 13سالہ نوجوان آیا۔ آنکھیں آنسو سے نم تھیں۔ رہبر معظم نے ہاتھ آگے بڑھا کر کہا کہ بیٹا خوش آمدید۔ نوجوان گلوگیر ہوا اور کہا سلام آغا آپ خیریت سے ہیں؟
رہبر معظم نے اس کا ہاتھ پیر تھاما اور کہا سلام بیٹا کیسے ہو؟ جوان نے سر ہلایا۔ اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ محافظین نے کہا یہی ہے آغا خامنہ ای۔ اچانک رہبر معظم نے سلیس آذربائیجانی زبان میں کہا بیٹا آپ کا کیا نام ہے؟ مادری زبان سن کر نوجوان کی جان میں جان آگئی اور کہا میرا نام مرحمت ہے۔ اردبیل سے تہران فقط آپ سے ملنے کے لئے سفر کیا ہے۔
رہبر معظم نے اپنا ہاتھ مرحمت کے کندھے پر رکھا اور کہا میرے لئے فخر کی بات ہے۔ اتنی زحمت کیوں کی؟ اردبیل کس جگہ سے تعلق ہے؟ مرحمت نے مختصر تبسم کے بعد کہا کہ انگوت کندی سے۔ رہبر معظم نے کہا چای گرمی سے؟ جوان نے کہا جی ہاں بالکل۔ میں حضرتقلی کا بیٹا ہوں۔
رہبر معظم نے کہا اللہ آپ کے والدین کو حفظ و امان میں رکھے۔ نوجوان نے کہا کہ آغا میں اردبیل سے یہاں آیا ہوں تاکہ ایک خواہش بیان کروں۔ رہبر معظم نے کندھے سے عبا کو سیدھا کیا اور کہا بولو کیا خواہش ہے؟ بولا کہ آغا جان! علماء اور ذاکرین کو حکم دیں کہ دوبارہ حضرت قاسمؑ کے مصائب نہ پڑھیں۔ رہبر معظم نے تعجب سے پوچھا کیوں؟ دوبارہ گلوگیر ہوا سر نیچے کرکے ٹوٹے جملوں سے کہا کہ آغا جان! حضرت قاسمؑ تیرہ سال کے تھے اور امام حسینؑ نے ان کو میدان جنگ میں جانے کی اجازت دی میں بھی تیرہ سالہ نوجوان ہوں لیکن اردبیل کا کمانڈر مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ جس قدر درخواست کروں انکار کرتا ہے۔ اگر تیرہ سالہ نوجوان جنگ نہیں کرسکتا ہے تو حضرت قاسمؑ کیسے میدان میں گئے؟
مرحمت کے کندھے لرز رہے تھے لیکن ان کے جملوں سے رہبر معظم کا دل ہل گیا۔ دوبارہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا کیا سکول نہیں جاتے ہو؟ پڑھنا بھی ایک جہاد ہے۔
مرحمت نے کچھ نہ کہا فقط گریہ کیا۔ رہبر معظم نے اس کو آگے بلایا اور سینے سے لگایا اور اپنے محافظین کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا ایک کام کریں فلان سے رابطہ کریں اور کہیں کہ یہ نوجوان ہمارا ساتھی ہے۔ اس کا کام حل کریں۔ جہاں بھی جانا چاہے جانے دیں۔ اردبیل تک گاڑی کا بندوبست کریں اور وہاں پہنچنے پر مجھے اطلاع دیں۔
رہبر معظم نے مرحمت کی آنکھوں سے آنسو صاف کیا اور بوسہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے بھی دعا کرنا۔ سکول اور پڑھائی کو مت بھولنا۔ اپنے والدین اور محاذ کے دوستوں کو میرا سلام پہنچانا۔
تین دن بعد سپاہ اردبیل کا کمانڈر ایک حکمنامہ لے کر آیا جوکہ امام خمینیؒ کا حکم نامہ تھا۔ امام نے ان کا نام لشکر عاشورا 31 میں سر فہرست لکھا تھا۔