اپنے کالم میں نومنتخب صدر نے شہید صدر رئیسی کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ عالمی ممالک کے ساتھ معاملات میں اپنی حکومت کی پالیسی بیان کی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نومنتخب ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے معروف ایرانی انگلش اخبار تہران ٹائمز میں اپنے کالم دنیا کے نام پیغام دیا ہے جس میں کہا ہے کہ ہمارے خطے میں جنگ اور ہنگامہ آرائی کے درمیان، ایران کے سیاسی نظام نے شاندار استحکام کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرامن اور منظم انداز میں انتخابات کروا کر بعض مبصرین کی غلط فہمیوں کو دور کردیا ہے۔ یہ ہمارے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی فہم و فراست اور مشکلات کے باوجود اقتدار کی جمہوری منتقلی کے لیے ہمارے عوام کے سیاسی شعور کی واضح دلیل ہے۔

میں نے اصلاحات کے پلیٹ فارم پر قومی اتحاد کو فروغ دینے اور دنیا کے ساتھ تعمیری مذاکرات کے لیے انتخاب لڑا اور اپنے ہم وطنوں کا اعتماد حاصل کیا جن میں وہ نوجوان خواتین اور مرد بھی شامل ہیں جو مجموعی صورت حال سے مطمئن نہیں تھے۔ میں ان کے اعتماد کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتا ہوں اور اپنی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے پوری طرح پرعزم ہوں۔

میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ میری انتظامیہ ہر حال میں ایران کے قومی اور بین الاقوامی وقار کا تحفظ کرے گی۔ ایران کی خارجہ پالیسی کی بنیاد احترام، حکمت اور ہوشیاری کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ اس ریاستی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد صدر اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ میں اس اہم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دفتر کو دیے گئے تمام اختیارات سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

میری حکومت پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کو ترجیح دے گی۔ ہم خطے میں امن اور استحکام کی حمایت کریں گے۔ میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ علاقائی ممالک کو اپنے قیمتی وسائل کو باہمی مقابلوں، ہتھیاروں کی دوڑ، یا ایک دوسرے کو غیر ضروری طور پر روکنے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے ہمارا مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہے جہاں ملکی وسائل خطے کی ترقی کے لیے وقف کیے جا سکیں۔

ہم ترکی، سعودی عرب، عمان، عراق، بحرین، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور علاقائی تنظیموں کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے، مشترکہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے، مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعاون کے خواہاں ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ مذاکرات، اعتماد سازی اور ترقی کے لیے علاقائی فریم ورک کے قیام کی طرف بڑھیں۔ ہمارا خطہ طویل عرصے سے جنگ، فرقہ وارانہ تنازعات، دہشت گردی اور انتہا پسندی، منشیات کی اسمگلنگ، پانی کی کمی، پناہ گزینوں کے بحران، ماحولیاتی آلودگی اور غیر ملکی مداخلت جیسے مسائل کا شکار ہے۔ آنے والی نسلوں کے فائدے کے لیے ان مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کا وقت ہے۔ علاقائی ترقی اور خوشحالی کے لیے تعاون ہماری خارجہ پالیسی کا رہنما اصول ہو گا۔

پرامن اسلامی تعلیمات اور مشترکہ روایات سے مالا مال اقوام کے طور پر ہمیں متحد ہونا چاہیے اور طاقت کی منطق کے بجائے منطق کی طاقت پر انحصار کرنا چاہیے۔ اپنے اصولی اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم امن کو فروغ دے کر اور اسلامو فوبیا کو دور کر کے ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایران اس سلسلے میں اپنا منصفانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

1979 میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد، نئی حکومت نے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے دو نسل پرست حکومتوں، اسرائیل اور جنوبی افریقہ سے تعلقات منقطع کر لیے۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد سے ہی جنگی جرائم، نسل کشی اور دوسروں کی زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے ریکارڈز قائم کئے ہیں۔

میری حکومت ہمسایہ عرب ممالک پر زور دے گی کہ وہ غزہ میں قتل عام کو روکنے اور تنازع کو وسیع ہونے سے روکنے کے لیے غزہ میں مستقل جنگ بندی کے لیے تعاون کریں اور تمام سیاسی اور سفارتی ذرائع استعمال کریں۔ اس تناظر میں، میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ 1948 کے نسل کشی کنونشن کے تحت تمام ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ نسل کشی کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

آج مغربی ممالک میں نوجوانوں نے اسرائیلی حکومت کے بارے میں ہمارے عشروں پر محیط موقف کو تسلیم کر لیا ہے۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بہادر نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم فلسطین کے مسئلے پر اس کے اصولی موقف کی وجہ سے ایران کے خلاف سام دشمنی کے الزامات کو نہ صرف صریح طور پر جھوٹا سمجھتے ہیں بلکہ ہماری ثقافت، عقائد اور بنیادی اقدار کی توہین بھی سمجھتے ہیں۔ یقین رکھیں کہ یہ الزامات اتنے ہی مضحکہ خیز ہیں جتنے آپ پر لگائے گئے امریکہ دشمنی کے غیر منصفانہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں جب آپ فلسطینیوں کے جینے کے حق کے دفاع کے لیے یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کرتے ہیں۔

چین اور روس مشکل وقت میں مسلسل ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ ہم اس دوستی کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ چین کے ساتھ ہم نے باہمی طور پر جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ قائم کیا ہےاور ہم بیجنگ کے ساتھ مزید وسیع تعاون کے منتظر ہیں۔ 2023 میں چین نے سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کو معمول پر لانے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور بین الاقوامی معاملات میں اپنے تعمیری نقطہ نظر اور آگے کی سوچ کا مظاہرہ کیا۔

روس ایران کا ایک قابل قدر سٹریٹجک اتحادی اور پڑوسی ہے اور میری حکومت باہمی تعاون کو وسعت دینے اور بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم روس اور یوکرین کے درمیان قیام امن کے لیے کوشاں ہیں۔ میں روس کے ساتھ دو طرفہ اور کثیر جہتی تعاون کو ترجیح دیتا رہوں گا، خاص طور پر برکس، شنگھائی تعاون تنظیم اور یوریشیا اکنامک یونین جیسے پلیٹ فارمز پر اس کی طرف خصوصی توجہ دوں گا۔

میری حکومت عالمی سطح پر ابھرتے ہوئے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ،خاص طور پر افریقی ممالک کے ساتھ باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم اپنی مشترکہ کوششوں کو بڑھانے اور تمام متعلقہ افراد کے باہمی فائدے کے لیے اپنی شراکت داری کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔ لاطینی امریکہ کے ساتھ ایران کے اچھے تعلقات قائم ہیں اور انہیں تمام شعبوں میں ترقی، بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے برقرار رکھا جائے گا۔ ایران اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے درمیان تعاون کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

ایران کے یورپ کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ مئی 2018 میں جوہری معاہدہ (جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن) سے امریکہ کی دستبرداری کے بعد، یورپی ممالک نے ایران سے گیارہ وعدے کیے تھے کہ وہ معاہدے کو بچانے کی کوشش اور ہماری معیشت پر امریکہ کی غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیوں کے اثرات کو کم کریں گے۔ ان وعدوں میں موثر بینکنگ لین دین کو یقینی بنانا، امریکی پابندیوں سے کمپنیوں کا موثر تحفظ اور ایران میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا شامل تھا۔ یورپی ممالک ان تمام وعدوں سے مکر گئے ہیں۔ اس کے باوجود یورپی ممالک غیر معقول طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایران JCPOA کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں کو یکطرفہ طور پر پورا کرے گا۔

ان غلطیوں کے باوجود میں یورپی ممالک کے ساتھ تعمیری بات چیت کا منتظر ہوں۔ یورپی ممالک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایرانی خود دار لوگ ہیں جن کے حقوق اور وقار کو مزید نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

امریکہ کو بھی یہ حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایران دباؤ میں نہیں آئے گا۔ ہم نے نیک نیتی کے ساتھ 2015 میں جوہری معاہدہ کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح پورا کیا۔ لیکن امریکہ غیر قانونی طور پر اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا، جس سے ہماری معیشت کو سیکڑوں بلین ڈالر کا نقصان پہنچا، اور ایرانی عوام کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ غیر منصفانہ پابندیوں کے علاوہ امریکہ نے غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کیا جس نے داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو جڑ سے اکھاڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے نہ صرف خطے اور دنیا میں تناؤ کو کم کرنے اور اس پر قابو پانے کا ایک تاریخی موقع گنوا دیا، بلکہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کو بھی نقصان پہنچایا۔ درحقیقت امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا اور اسے ایرانی عوام کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کی حمایت جاری رکھی جو کہ ایک نسل پرست حکومت ہونے کے ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔

میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ایران کے دفاعی ڈاکٹرائن میں جوہری ہتھیاروں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میں امریکہ پر زور دیتا ہوں کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور اس کے مطابق اپنی پالیسی کو ایڈجسٹ کرے۔ واشنگٹن حکام کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ علاقائی ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کی پالیسی کامیاب نہیں ہوگی۔

ایرانی عوام نے مجھے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار سونپا ہے کہ میں اپنے عوام کے حقوق، وقار اور مفادات کے حصول کے لئے اقدامات انجام دوں۔ میں ان لوگوں سے تعاون کا طلبگار ہوں جو اس تاریخی کوشش میں ہمارا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔