مہر نیوز ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ 28 جون 1981 کو ایرانی انقلاب اسلامی کی تاریخ کا المناک واقعہ رونما ہوا جب منافقین نے عدلیہ کے سربراہ سید محمد حسین بہشتی کو ان کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید کردیا۔
رہبر معظم نے اس واقعے کے حوالے سے کہا تھا کہ ہم نے 28 جون کے واقعے میں اہم شخصیات کو کھودیا۔ شہید بہشتی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ابتدائی سالوں میں انتھک محنت کی اور عدلیہ میں اہم امور انجام دیے اور طویل المدتی حکمت عملی ترتیب دی۔
شہید صدر ابراہیم رئیسی نے شہید بہشتی کو اسلامی جمہوری ایران کے عدالتی نظام کا معمار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ شہید بہشتی عدالتی نظام میں مختصر مدت کے لیے سربراہ بنے تھے، لیکن اپنے خلوص، دیانتداری، علم اور عمل کی وجہ سے شہید بہشتی کو اسلامی جمہوریہ کے نظام کے معمار کا لقب پایا۔ اگرچہ شہید بہشتی ایک اہم سیاسی تنظیم میں ایک موثر مقام رکھتے تھے، لیکن کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے کام میں عدلیہ میں اپنے مشن سے غافل نہں ہوگئے تھے۔ وہ کسی بھی طرح سے سیاسی ماحول سے متاثر نہیں تھے۔ انبیاء اور ائمہ کی پیروی کرتے تھے اور خوف خدا اور خوشنودی کے علاوہ کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔
شہید بہشتی 1928 میں اصفہان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے تہران یونیورسٹی اور قم میں محمد حسین طباطبائی میں تعلیم حاصل کی۔ 1965 سے 1970 تک، انہوں نے ہیمبرگ میں اسلامی مرکز کی قیادت کی، جہاں وہ جرمنی اور مغربی یورپ میں مذہبی ایرانی طلباء کی روحانی قیادت کے ذمہ دار تھے۔ 1960 کی دہائی میں انہوں نے شاہ ایران کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف فعالیت کی۔ شاہ کی خفیہ پولیس، ساواک نے کئی بار ان کو گرفتار کیا۔ بہشتی نے عراق کے شہر نجف میں آیت اللہ خمینی کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جہاں وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد انہوں نے دن رات ملک اور قوم کے فلاح و بہبودی کے لئے کام کیا۔ 28 جون 1981 کو منافقین نے پارٹی کے دوسرے رہنماوں کے ہمراہ سید محمد حسین بہشتی کو شہید کردیا۔ دہشت گردی کے واقعے میں کابینہ کے چار وزرا اور پارلیمنٹ کے 23 اراکین بھی شہید ہوگئے۔
شہادت کے بعد امام خمینی نے شہید بہشتی کو ایرانی قوم کا اثاثہ قرار دیا۔
ہر سال 28 جون کو پورے ایران میں ان کی شہادت کی مناسبت خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔۔