مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران میں 28 جون کو صدارتی انتخابات ہورہے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے درمیان ٹی وی اور ریڈیو پر لائیو مباحثہ جاری ہے۔ اب تک انتخابی مباحثے کے تین دور ہوچکے ہیں۔ آج مباحثے کا چوتھا دور ہورہا ہے جس میں تمام امیدوار شرکت کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ 19 مئی کو صدر رئیسی کی فضائی حادثے میں شہادت کے بعد ایران میں قبل از صدارتی انتخابات ہورہے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے سلسلے میں عوام 28 جون کو ووٹ دیں گے۔
صدارتی انتخابات میں پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف، تہران کے میئر علی رضا زاکانی، مسعود پزشکیان، سید میر حسین قاضی زادہ ہاشمی، سعید جلیلی اور مصطفی پور محمدی حصہ لے رہے ہیں۔
انتخابی مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے باقر قالیباف نے کہا کہ ہم سب کو عوام کے ساتھ وعدہ کرنا چاہئے کہ معاشی مشکلات ہماری اولین ترجیح ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کہتے تھے کہ خطرات کے اندر فرصت موجود ہے۔ ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔ ہم ہر حال میں مذاکرات کریں گے چنانچہ شہید صدر رئیسی نے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہر وہ معاہدہ جس میں اقتصادی فایدہ ہو، اس کا خیر مقدم کریں گے۔
صدارتی امیدوار مسعود پزشکیان نے کہا کہ فیٹف کے بارے میں ایک دن حتمی فیصلہ کریں گے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر درپیش مشکلات اور اقتصادی مشکلات کو حل کرنا ہے تو کسی مسئلے پر متفق ہونا پڑے گا۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ اسی حکومت کا کارنامہ ہے جس کے بارے لوگ اچھی رائے نہیں رکھتے ہیں۔
قاضی زادہ ہاشمی نے کہا کہ جب بھی یہ لوگ (پزشکیان کی پارٹی) اقتدار میں آتی ہے، ملک پر جنگ کے سائے نمودار ہوتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے بارے میں ایران کی پالیسی واضح ہے کہ سب کے ساتھ صلح برقرار کیا جائے اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت ختم کی جائے۔ جب حسن روحانی نے حکومت چھوڑ دی تو ہمسایہ ممالک کے نزدیک ایران کی حیثیت زیادہ مناسب نہیں تھی۔ افغانستان کی طرف خطرات لاحق تھے۔
شہید صدر رئیسی کی حکومت نے طاقت کے بل بوتے پر ایرانی شہریوں اسدی اور نوری جیسوں کو ملک میں واپس لایا۔ شہید صدر رئیسی اور شہید عبداللہیان نے معاملات ڈیل کرنے میں اپنی مہارت ثابت کردی۔ محمد بن سلمان ذاتی طور پر شہید صدر رئیسی سے رابطہ برقرار کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔
مصطفی پور محمدی نے کہا کہ خارجہ پالیسی داخلی پالیسی کا تسلسل ہے۔ اگر داخلی سطح پر طاقت ور ہو جائیں تو بین الاقوامی معاملات میں بھی اپنے اہداف حاصل کریں گے۔ ہم داخلی معاملات کے بارے میں کیوں مل کر بات نہیں کرتے ہیں؟ رہبر معظم نے فرمایا کہ سب کی شرکت سے ہی قوم طاقت ور ہوتی ہے۔ انتخابات کے بارے میں قانون کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے قومی اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔
سعید جلیلی نے کہا کہ صرف معدود ممالک کی طرف توجہ کرنا اصل مشکل ہے۔ خارجہ پالیسی میں ہمارے لئے فرصت زیادہ ہے۔ ہماری توجہ صرف چند ممالک پر مرکوز ہے جن کے ساتھ سب سے زیادہ اختلافات ہیں۔ حکومت کے اختتام پر معلوم ہونا چاہئے کہ کس قدر نوکریاں دیں اور کتنا زرمبادلہ کمایا۔ ہر سفارت خانہ برآمدات بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کرے۔ شہید صدر رئیسی نے آخری مرتبہ سری لنکا کے دورے میں اسی امر پر توجہ دی۔
علی رضا زاکانی نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنا موقف ایک کتاب کی شکل میں سامنے لایا ہے۔ دنیا تبدیلی کی زد میں ہے۔ ماضی کے فرسودہ روایات کے ساتھ جدید دنیا اور علاقائی سطح پر قدرت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ ایران کے گرد حصار کھینچا گیا ہے جس کو توڑنے کی ضرورت ہے۔