مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ پر صیہونی حکومت کی 8 مہینوں سے جاری جارحیت کے باوجود کسی عرب ملک کی طرف سے فلسطینی عوام کی حمایت میں ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ لبنانی تنظیم حزب اللہ اور یمنی انصار اللہ نے جنگ میں کود کر فلسطینیوں کی حمایت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔
7 اکتوبر کو فلسطینی مقاومت کی طرف سے اسرائیل پر حملے کے بعد صہیونی حکومت نے حواس باختہ ہوکر غزہ میں شدید حملہ شروع کیا۔ اس کے ایک دن بعد حزب اللہ نے جنوبی لبنان سے صہیونی فوج پر حملہ شروع کیا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حزب اللہ 8 اکتوبر کو ہی اسرائیل کے خلاف میدان جنگ میں وارد ہوگئی ہے۔ حزب اللہ نے بڑی ذہانت کے ساتھ اپنا کارڈ کھیلا ہے۔ ایک طرف اپنی طاقت کا پورا استعمال کرنے کے بجائے محدود مظاہرہ کیا ہے تو دوسری طرف شمالی فلسطین میں صہیونی تنصیبات پر مسلسل حملے کرکے تل ابیب کی توجہ کو غزہ پر مرکوز ہونے سے روکا ہے۔ سید حسن نصر اللہ کے مطابق حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے اسرائیل کی تیس فیصد فوج لبنان کی سرحد پر تعیینات کردی گئی ہے۔
حزب اللہ نے اپنی جنگی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ صہیونی فوج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سینکڑوں اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ نے جدید ترین اسرائیلی ڈرون ھرمس-900 کو تباہ کرکے ثابت کیا ہے کہ اس نے جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔
ھرمس 900 ڈرون اسرائیل کا جدید ترین ڈرون طیارہ شمار ہوتا ہے جس کو اسرائیل اپنی اعلی ٹیکنالوجی قرار دیتا ہے۔ حزب اللہ کی طرف سے ڈرون کو نشانہ بنانے سے پہلے کئی ممالک اس ڈرون کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرچکے تھے۔
الرضوان بریگیڈ
الرضوان بریگیڈ حزب اللہ کے تربیت یافتہ ترین مجاہدین پر مشتمل گروہ ہے جس کو شہید عماد مغنیہ نے 2001 میں تشکیل دیا تھا۔ اس بریگیڈ کو چھاپہ مار جنگوں کی خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ شام کی جنگ میں شرکت کے بعد الرضوان کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
الرضوان کے مجاہدین ٹینک شکن ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد استعمال کرتے ہیں۔ ان میں لمبے فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت ہے، پہاڑی علاقوں میں مشکل مشن انجام دینے کی طاقت رکھتے ہیں اور خفیہ اور حساس فوجی مشن کو برق رفتاری کے ساتھ انجام دینے کی مہارت رکھتے ہیں۔
شمالی محاذوں پر الرضوان کی کاروائیوں کے بعد صہیونی آباد کار شمالی محاذ خالی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک اندازے کے مطابق 200,000 سے زیادہ صہیونی آباد کار شمالی سرحدوں کو خالی کر چکے ہیں۔ صہیونی اخباریدیعوت احارونوت کے عسکری امور کے تجزیہ کار یوسی یھوشوا، جن کی تل ابیب میں اعلیٰ سطح کے سیکورٹی ذرائع تک رسائی ہے، نے کہا کہ جب تک الرضوان بریگیڈ لبنان کی سرحد پر ہے، صہیونی آبادکاروں کے اپنے گھروں کو واپس آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
حزب اللہ کی جانب سے فلسطینی مقاومت کی حمایت کے عملی نتائج
حزب اللہ نے فلسطینی مقاومت کی حمایت میں صہیونی فوجی تنصیبات پر حملے کئے جس کے کئی اثرات اور نتائج سامنے آئے ہیں۔
1۔ شمالی سرحد کو صہیونی حکومت کے لئے خطرناک بنانا
حزب اللہ طوفان الاقصی آپریشن کے ایک دن بعد یعنی 8 اکتوبر سے جنگ میں داخل ہوئی اور اس نے صیہونی فوج پر شدید ضربیں لگائیں جس سے صہیونی حکومت اپنی تقریباً 30 فیصد افواج کو شمالی محاذ پر تعیینات کرنے پر مجبور ہو گئی۔ حزب اللہ نے اپنے اس اقدام سے صہیونی حکومت کی غزہ پر توجہ مرکوز کرنے کی حکمت عملی کو ناکام بنادیا۔ درحقیقت حزب اللہ نے اپنی منظم کاروائیوں سے اسرائیل کے خلاف خطرات کی سطح کو برقرار رکھا ہے۔
شمالی محاذ پر حزب اللہ کی نقل و حرکت کی وجہ سے صیہونی حکومت نے اپنی 30 فیصد افواج شمالی سرحد پر تعینات کر دیں۔ حزب اللہ کے حملوں میں اسرائیلی فوج کی ہلاکتوں کے بعد فوجیوں کے اہل خانہ کی طرف سے احتجاج میں شدت آئی ہے اور فوجی جوان بھی بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ میں شامل ہونے سے بھی انکار کررہے ہیں۔ ان حالات میں نیتن یاہو کی کابینہ پر سماجی دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ شمالی سرحدوں پر رہنے والے تقریباً ایک لاکھ آباد کاروں کی نقل مکانی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اسرائیل کے مختلف حصوں میں صہیونی نتن یاہو کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں اور عوام جنگی کابینہ کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
3۔ حزب اللہ کی جانب سے وسیع جنگ کے لئے اعلان آمادگی
حزب اللہ نے صیہونی حکومت کے ساتھ 9 ماہ تک جنگ میں مسلسل موجودگی اور نیز ہرمس 900 ڈرون مار گرانے کے ذریعے صیہونی حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ ہمہ گیر جنگ کے لیے تیار ہے۔ صیہونی حکومت نے ہمیشہ مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں سے فوجی خطرات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب وہ طوفان الاقصی کے ساتھ حزب اللہ کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا بھی سامنا کررہی ہے۔
نتیجہ
غزہ میں پے در پے شکستوں کے بعد صہیونی جنگی کابینہ شمالی سرحدوں پر حزب اللہ کے ساتھ رسمی جنگ کا اعلان کرسکتی ہے۔ اس طرح طوفان الاقصی کی تباہ کن لہروں سے خود کو چھڑانے میں مصروف صہیونی حکومت آسانی کے ساتھ حزب اللہ کی جال میں پھنس سکتی ہے۔