مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد پر سیکورٹی کونسل کے 15 میں سے 14 اراکین نے حمایت میں ووٹ دیا اس طرح راتوں رات غزہ کے حالات بدل رہے ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم کے لئے حالات سخت ہورہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صہیونی وزیراعظم اقوام متحدہ کی قرارداد کو منظور کریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ 8 مہینوں کے دوران غزہ میں ہر طرح کے مظالم کے باوجود صہیونی حکومت اپنے اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
قرارداد کی منظوری کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے ابھی تک کھل کر اس پر عمل کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ صہیونی کابینہ کے دو اہم وزراء کے استعفے کے بعد نتن یاہو کے لئے حالات مزید دشوار ہوگئے ہیں۔ صہیونی وزیراعظم کو اندرونی طور پر سیاسی بحران درپیش ہے۔
امریکہ رویے میں تبدیلی کی وجہ
ماہ رمضان میں بھی سیکورٹی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی گئی تھی۔ امریکہ کے علاوہ باقی 14 اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکی نمائندے نے اگرچہ مخالفت نہیں کی تاہم اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لئے ووٹ بھی نہیں دیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختصر عرصے میں کیا چیز باعث بنی کہ امریکہ کا رویہ بدل گیا اور جنگ بندی کی قرارداد پیش کی؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نتن یاہو کے وعدوں سے ناامید ہوچکا ہے۔ نتن یاہو مسلسل غزہ میں کامیابی کے دعوے اور وعدے کرتے آئے ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطین کے نہتے شہریوں پر امریکی جدید ترین اسلحے استعمال کررہی ہے۔ حملوں کے آغاز سے اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور معصوم بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اس بربریت کی وجہ سے صہیونی کابینہ کے اندر ہی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ امریکہ میں طلباء سمیت لاکھوں لوگ صدر جوبائیڈن کی پالیسی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ صدر جوبائیڈن اور ان کی انتظامیہ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے کہ نتن یاہو کی مزید حمایت سے وائٹ ہاوس بھی بحران کی زد میں آسکتا ہے۔
گذشتہ مہینوں کے دوران امریکی وزیرخارجہ نے 8 مرتبہ مشرق وسطی کا دورہ کیا ہے۔ امریکہ نتن یاہو سے ناامید ہوا ہے اور جنگ کے غیر متوقع نتائج سے خوف و ہراس کا شکار ہوگیا ہے لہذا غزہ میں جنگ بندی کی امریکی قرارداد انسانی حقوق کے دفاع اور فلسطینی شہریوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے ہرگز نہیں بلکہ اس کی وجہ غزہ میں متوقع شکست سے دامن بچانا ہے۔
امریکی سفیر کا جانبدارانہ رویہ
اگرچہ امریکہ نے سیکورٹی کونسل میں قرارداد پیش کی تاہم امریکی سفیر نے کہا ہے کہ امریکہ اب بھی صہیونی حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ تھامس گرینفیلڈ نے کہا کہ اس قرارداد میں حماس کے لئے واضح پیغام ہے۔ حماس کو چاہئے کہ قرارداد کو قبول کرتے ہوئے جنگ ختم کرے اور یرغمالیوں کو رہا کرے تاکہ غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل کا کام شروع ہوسکے۔
نتن یاہو کو کیا خوف ہے؟
یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس وقت دنیا میں نتن یاہو سے بڑھ کر کوئی سیاست دان دباؤ اور خوف میں مبتلا نہیں ہے۔ طوفان الاقصی سے پہلے ہی نتن یاہو کی حکومت کی کشتی طوفان میں گر چکی تھی۔ مالی بدعنوانی کے الزامات، متنازع عدالتی اصلاحات اور صہیونی حکومت کے نظام کو متزلزل کرنا ایسے الزامات تھے جن کا نتن یاہو سامنا کررہے تھے۔ گذشتہ 8 مہینوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف بربریت اور مظالم کی وجہ سے پوری دنیا میں رائے عامہ نتن یاہو کے خلاف ہوگئی ہے اسی لئے گذشتہ دنوں جنگی کابینہ کے کئی اراکین مستعفی ہوگئے۔ اگلے اتنخابات میں نتن یاہو کی پارٹی کو بری طرح شکست کا زیادہ امکان ہے۔ شکست کے بعد نتن یاہو کی مشکلات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جائیں گی کیونکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے خلاف قانونی کاروائی کے لئے چارج شیٹ تیار کررہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ وزارت عظمی سے کنارہ کشی کے بعد نتن یاہو کو جیل کی ہوا کھانی پڑے۔
جنگ بندی کو درپیش چیلنجز
غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کا مقصد امن کا قیام اور قیدیوں کا تبادلہ ہے۔ امریکی مبصرین کے مطابق قرارداد میں خامیاں موجود ہیں اور اس پر عملدرامد میں کوئی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں۔
واشنگٹن کے تحقیقاتی ادارے کے سربراہ رابرٹ سٹلوف نے کہا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی قرارداد امید بخش ہے لیکن اس سے ایک سیاسی طوفان آسکتا ہے۔ صدر بائیڈن کو جنگ بندی کے منصوبے کے اگلے مرحلے میں حماس کی طرف سے تعاون کا یقین نہیں ہے۔ اس حوالے سے صرف مصر اور قطر سے تعاون کی امید کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل دفاعی اور سفارتی لحاظ سے امریکی حمایت کا محتاج ہے۔ یہ خود اپنی جگہ امریکہ کے لئے درد سر بن سکتا ہے۔
گذشتہ مہینوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کی رو سے امکان یہی ہے کہ نتن یاہو جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر عمل کریں گے اور قیدیوں کے تبادلے کے لئے راضی ہوجائیں گے البتہ غزہ سے فوج کا انخلاء نتن یاہو کے لئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اقدام شکست کا اعتراف کرنے کے مترادف ہوگا۔ تیسرا مرحلہ یعنی غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ بہرحال جنگ بندی فلسطینیوں کے فائدے میں ہے۔ غزہ سے صہیونی افواج کا انخلاء حالیہ سالوں میں اسرائیل کو ہونے والی شکستوں ایک واضح ترین نمونہ ہوگا۔