مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت دنیا کے مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، جنگی جرائم اور نسل کشی کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کے مطابق عالمی عدالت کے فیصلوں کو قبول یا مسترد کرتا ہے۔
عالمی عدالت میں پراسیکوٹر کریم خان نے 20 مئی کو غزہ میں جنگی جرائم پر صہیونی وزیراعظم کو گرفتار کرنے کی درخواست کی۔ ان کی درخواست کے بعد عالمی عدالت کے ججز کا پینل سماعت کرے گا۔
کریم خان نے کہا تھا کہ غزہ میں گذشتہ آٹھ مہینوں کے دوران جنگ اور جنایت کی وجہ سے نتن یاہو اور گیلانت کی گرفتاری کا حکم جاری کیا جائے۔ سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صہیونی وزیراعظم اور وزیرجنگ نے غزہ میں نسل کشی، قحط سالی اور امداد رسانی میں خلل ڈالنے جیسے اقدامات کئے ہیں۔
عالمی عدالت کے فیصلے کا سرعام مذاق
صہیونی وزیراعظم نے عالمی عدالت کے پراسیکوٹر کی درخواست کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے باوجود پوری دنیا کا آزادانہ سفر کریں گے۔ دوسری جانب امریکہ نے بھی حسب توقع شدید ردعمل دکھایا ہے کیونکہ پہلی مرتبہ اس کا قریبی اتحادی عدالت کے فیصلے کا شکار ہوا ہے۔
وزیرخارجہ بلینکن نے صہیونی حکام کی گرفتاری کے حکم کو شرمناک قرار دیتے ہوئے عدالت کو صلاحیت سے عاری قرار دیا ہے۔
اس سے پہلے صدر جوبائیڈن نے بھی عالمی عدالت کے فیصلے کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرے گا۔
دوسری جانب امریکی کانگریس کے سربراہ مائیک جانسن نے کہا ہے کہ کانگریس جلد صہیونی وزیراعظم کو دورے کی دعوت دے گی۔ جانسن اور چند اراکین نے عالمی عدالت پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ اس سے پہلے 2020 میں بھی عالمی عدالت پر پابندی عائد کرچکا ہے۔
عالمی عدالت کے فیصلے سے قطع نظر امریکی حکام صہیونی حکومت کے خلاف ہونے والے اقدامات پر پہلے سے ہی سیخ پا ہیں۔ اسپین، آئرلینڈ اور ناروے کی جانب سے فلسطین کو خودمختار ملک تسلیم کرنے کے فیصلے نے امریکہ کو وحشت زدہ کردیا ہے۔ چنانچہ وائٹ ہاوس کے اعلی عہدیدار جیک سالیوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے روایتی حامی ممالک میں بھی اس وقت اسرائیل کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے یہ امر امریکہ کے لئے تشویشناک ہے۔
عالمی عدالت کے فیصلے اور امریکی دوغلی پالیسی
امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کی حمایت میں امریکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے باہر نکل گیا تھا۔ انسانی حقوق کے نام نہاد دعویدار نے اب تک اقوام متحدہ میں 50 مرتبہ صہیونی حکومت کے حق میں ویٹو کا استعمال کیا ہے۔ جوبائیڈن حکومت بھی غزہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کررہی ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ نے اب تک چار مرتبہ اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے ناکام بنایا ہے۔ اس طرح گذشتہ آٹھ مہینوں کے دوران غزہ میں 35 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کی شہادت میں عملی طور پر شریک ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
امریکی دوغلی پالیسی کا دائرہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کمیشن سے نکل کر عالمی عدالت تک پہنچ گیا ہے۔ صدر جوبائیڈن نے کینیا کے ہم منصب سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ ہم نے عالمی عدالت کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا ہے۔ ہم عالمی عدالت کو کسی فیصلے کی اہل نہیں سمجھتے ہیں۔
صدر جوبائیڈن نے ایسے وقت میں یہ بیان دیا ہے کہ 100 سے زائد امریکی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان سے درخواست کی ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے کی حمایت کریں اور بعض امریکی اہلکاروں کی طرف سے عالمی عدالت پر پابندی کے مطالبے پر توجہ نہ دیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عالمی عدالت پر پابندی کے مطالبے پر عمل کرنے سے بین الاقوامی سطح پر امریکہ کا امیج بری طرح متاثر ہوگا۔
اگر عالمی عدالت کے فیصلوں کے بارے میں امریکی ردعمل کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو امریکی دوغلی پالیسی کھل کر سامنے آتی ہے۔ جب دو سال پہلے عالمی عدالت نے یوکرائن کے خلاف جنگ شروع کرنے پر روسی صدر پوٹن کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تو جوبائیڈن نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ پوٹن کی گرفتاری کے بارے میں عدالت کا فیصلہ معقول ہے۔
صدر جوبائیڈن کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے واشنگٹن میں تعیینات روسی سفیر نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ منافقت اور دوہرا معیار اختیار کرنا امریکہ کی عادت ہے۔ عالمی عدالت کے فیصلوں سے امریکی مفادات خطرے میں پڑجائیں تو امریکہ اس کو مسترد کرتے ہوئے پابندی کی دھمکی دیتا ہے۔