مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ق رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بدھ کی صبح مایہ ناز مفکر استاد شہید آیت اللہ مرتضیٰ مطہری کی شہادت کی برسی اور یوم اساتذہ کی مناسبت سے ملک بھر سے آئے ہوئے ٹیچروں سے ملاقات کی۔
انھوں نے اس ملاقات میں یوم اساتذہ کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسٹوڈنٹس، نوجوانوں اور جوانوں کو اسلامی انقلاب کی پالیسیوں اور رویے کی منطق سے باخبر ہونا چاہیے اور انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ قوم کے "امریکا مردہ باد" اور "اسرائيل مردہ باد" کے نعروں کے پیچھے کون سی منطق چھپی ہوئي ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر دسیوں لاکھ بچے اور نوجوان، دوست اور دشمن محاذ سے آگاہ ہو جائيں اور دشمنوں کے اہداف کے مقابلے میں 'ویکسینیٹڈ' ہو جائیں تو دشمنوں کی میڈیا اور سیاست کے میدان میں کی گئي بے پناہ سرمایہ کاری بے سود ہو جائے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں اور ان کے امریکی و یورپی حامیوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود غزہ کا مسئلہ بدستور، دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونی حکومت کے جرائم پر احتجاج اور اس کا دائرہ بڑھ کر یورپی یونیورسٹیوں تک پہنچ جانے سے واضح ہو جاتا ہے کہ عالمی رائے عامہ اب بھی غزہ کے مسئلے میں حساس ہے۔
انھوں نے غاصب حکومت پر رائے عامہ کا دباؤ روز بروز بڑھتے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ صیہونی پاگل کتے کا بہیمانہ اور بے رحمانہ رویہ، اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کے موقف کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے اور تیس ہزار سے زیادہ افراد کے قتل عام نے، جن میں سے نصف عورتیں اور بچے ہیں، صیہونی حکومت کی شرانگیزی اور خبیثانہ ماہیت اور ایران کے مستقل موقف کی حقانیت کو پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اسرائيل کے جرائم کے خلاف اسٹوڈنٹس کے "پرامن اور غیر تشدد آمیز احتجاج" کے سلسلے میں امریکا اور اس کے اداروں کے رویے کو، امریکی حکومت سے بدگمانی کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی درستگی کی ایک اور دلیل بتایا۔
انھوں نے کہا کہ اس بات نے دکھا دیا کہ امریکا غزہ کے عوام کے قتل عام کے ناقابل معافی گناہ میں صیہونیوں کا شریک جرم ہے اور امریکیوں کی بعض بظاہر ہمدردانہ باتیں بھی جھوٹ ہیں، بنابریں اسلامی جمہوریہ کا یہ موقف کہ امریکی حکومت پر نہ تو اعتماد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں حسن ظن رکھا جا سکتا ہے، ثابت ہو گيا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید کہا کہ مسئلۂ فلسطین کا حل، ایران کی جانب سے دی گئي تجویز یعنی فلسطین کو مسلمانوں، عیسائيوں اور یہودیوں سمیت اس کے اصلی مالکوں کو لوٹایا جانا ہے۔
انھوں نے اس سلسلے میں کہا کہ جب تک فلسطین اس کے اصل مالکوں کو واپس نہیں ملے گا تب تک مغربی ایشیا کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اور اگر مزید بیس تیس سال تک وہ لوگ یہ کوشش کریں کہ صیہونی حکومت کو اس کے پیروں پر کھڑا رکھیں، کہ ان شاء اللہ وہ ایسا کر نہیں پائيں گے، تب بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ فلسطین، اس کے لوگوں کو واپس ملنا چاہیے اور فلسطینی حکومت و نظام قائم ہونے کے بعد وہ لوگ خود فیصلہ کریں کہ انھیں صیہونیوں کے ساتھ کیا کرنا ہے۔
رہبر انقلاب نے اسی طرح صیہونی حکومت اور خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے کی جانے والی بعض کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا جبکہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آس پاس کے عرب ملکوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات معمول پر آ بھی گئے تو نہ صرف یہ کہ مشکل ختم نہیں ہوگي بلکہ ان حکومتوں کے لیے مشکل پیدا ہو جائے گي جنھوں نے غاصب حکومت کے جرائم کی طرف سے آنکھیں بند کر کے اس سے دوستی کا ہاتھ ملایا ہے اور اقوام ان حکومتوں کی جان کے پیچھے پڑ جائیں گي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں فعال ٹیچروں کو بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت کا معمار بتایا اور کہا کہ ٹیچر کی ہر بات، کام، موقف یہاں تک کہ اشارہ بھی نئي نسل کی شخصیت سازی میں مؤثر ہے۔