مہر خبررساں ایجنسی؛ میگزین گروپ ، مبینا افراختہ: قرآنی اجتماع میں شریک ایک معذور بچے کے کندھے پر فلسطین کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور وہ نم آنکھوں کے ساتھ بلند آواز میں "سلام فرماندہ" پڑھ رہا تھا۔ میں اس کے عاشقانہ اظہار عقیدت سے مسحور تھی کہ یکایک نگاہ اسٹیڈیم کے بڑے بینر پر جا لگی جس کے ایک طرف ایرانی پرچم اور دوسری طرف فلسطینی پرچم لہرا رہا تھا۔ لیکن اسٹینڈ کے سامنے والے پلیٹ فارم کا منظر سب سے زیادہ متاثر کن تھا کہ جہاں شہداء کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔
یہ تصاویر طوفان الاقصیٰ کے شہداء کی تھیں۔ ایسے میں ذہن کی اسکرین پر یہ سوال ابھرا کہ کیا غزہ کے شہداء اس ضیافت کے مہمان ہیں یا میزبان؟ معاملہ جو بھی ہو، ان کی موجودگی نے اس عظیم اجتماع کو ایک والہانہ احساس وابستگی اور جذبہ ایثار بخشا ہے۔
تقریب کا اختتام قریب ہے۔ پروگرام کے منتظم نے لوگوں کو قرآن اور غزہ کے جھنڈے ہاتھوں پر اٹھائے چند لمحوں کے لیے خاموشی اختیار کرنے کو کہا۔ اسٹیڈیم میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ " ھذا سلام" کا عربی رزمیہ ترانہ فضاؤں میں گونج رہا تھا۔ غزہ کی خواتین، بچوں اور معصوم لوگوں کی یاد میں سفید فاختائیں آزاد کی جارہی تھیں۔ اسٹیڈیم میں موجود مردوں اور عورتوں کے چہروں پر اشکوں کی بارش تھی، گویا اسرائیل کے تمام جرائم اور فلسطینیوں کے بے بس چہرے ان کے آنکھوں کے سامنے تھے، ان میں سے کچھ تو ضبط نہ کر سکے اور چیخ کر ایوان کی خاموشی توڑ ڈالی۔
میرے پہلو میں موجود ایک ننھا سا بچہ محمدرضا بول اٹھا ’’میں یہاں غزہ کے بچوں کے لیے دعا کرنے آیا ہوں۔"
غزہ کا لفظ سن کر پاس بیٹھی ایک ماں تڑپ اٹھی: میرے چار بچے ہیں، ہم غزہ کے بچوں کے لیے دعا کرنے کے لیے آئے ہیں۔ غزہ پر جاری مظالم اور جرائم کو دیکھ کر ہمارا جگر چھلنی ہے، لیکن ہم دعا کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ کاش ہم اس سے بڑھ کر کچھ سکتے ہوتے، کاش کاش۔
ایک ننھے بچے اور ممتا کی دل چیرنے والی آہیں اور غم انگیز تاثرات غزہ کے نہتے مظلوم عوام اور ننھے پھولوں سے حمایت کا اظہار تھے جو اس اجتماع کے شرکاء کے رنجیدہ خاطر مردوں اور سسکتی ماوں کے لبوں پر جاری تھے۔
غزہ کے شہداء کی تصویروں نے اس اجتماع میں ایثار و فداکاری اور مزاحمت کا رنگ بھر دیا تھا۔