مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر کے معاون سیکرٹری محمد مخبر نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس سے ناوابستہ ممالک کی تحریک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات میں غزہ کے حالیہ واقعات سمیت اہم علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات میں ایرانی صدر کے معاون اول نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ آج غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تمام آزاد اور بیدار ضمیر انسانوں کو سخت دکھ اور تکلیف کا سامنا ہے، مزید کہا: رہائشی اور شہری علاقوں پر وحشیانہ اور اندھادھند بمباری سے ہزاروں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اور پھر اس بربریت کے بعد علاقے کی معصوم عورتوں اور بچوں تک کسی بھی قسم کی امداد کو پہنچنے نہ دینا ایک ایسا جرم ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
محمد مخبر نے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے موقف کو سراہتے ہوئے صیہونیوں کے جرائم نہ رکنے کی صورت میں جنگ کا دائرہ وسیع ہونے پر خطے کے ممالک کی شدید تشویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: ان تلخ اور افسوسناک واقعات نے اقوام عالم کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور آج عالمی برادری سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والے جرائم کو روکنے کے لیے موثر کردار ادا کرے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ صیہونی غاصب حکومت نے اقوام متحدہ کے تمام سکریٹری جنرلز کی گواہی کے مطابق کسی بھی بین الاقوامی قانون اور بالخصوص بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے معاہدے کی پابندی نہیں کی، مزید کہا: اسی لئے اسلامی جمہوریہ دو ریاستی حل کو مسئلہ فلسطین کا حقیقی حل نہیں سمجھتا بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دوسرے لوگ اس مسئلے میں فیصلہ کرنے کے بجائے تمام فلسطینی عوام کی رائے دہی کی بنیاد پر انہیں اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے دیں۔ یہی اس مسئلے کا واحد باوقار جمہوری حل ہے۔
محمد مخبر نے ویٹوپاور کے غیر منصفانہ طریقہ کار کو بھی اقوام متحدہ کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا ہتھکنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا غیر منصفانہ حق موجود نہ ہوتا تو آج سلامتی کونسل کی قراردادوں کو امریکہ کی طرف سے ویٹو کرنے کے باعث بہت سی فلسطینی خواتین اور بچے موت کا شکار نہ ہوتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لینے اور اس طریقہ کار (ویٹو پاور) کو درست کرنے کی بنیادی ضرورت ہے۔
اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے غزہ کی موجودہ صورتحال کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی مقدار کے لحاظ سے اس خطے کی نازک صورتحال نہایت سنگین اور بے مثال ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے دور میں ماضی کے بحرانوں کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم غزہ کے لوگوں تک انسانی امداد پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلسل بمباری اس خطے کو امداد فراہم کرنے کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
گوتریس نے بحران کے دائرہ کار کو خطے کے دیگر حصوں تک پھیلانے کے نتائج بشمول بین الاقوامی آبی گزرگاہوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ میں جرائم کو روکنے کے لیے تمام دستیاب صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر کے سلسلے میں اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر تسلط قائم کرنا چاہتا ہے جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ مغربی کنارے پر مکمل تسلط چاہتا ہے لیکن اس طرح کے منصوبے کی تکمیل سے نہ ختم ہونے والے بحران اور فلسطینی علاقوں میں جنگ اور مستقل تنازعات میں اضافہ ہو گا۔
گوٹیریس نے نشاندہی کی کہ ان کے مطابق حماس کے حملے بھی ناقابل قبول تھے اور انہوں نے اس کی مذمت بھی کی لیکن ان کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر پوری فلسطینی قوم کو اجتماعی سزا دینا قابل قبول نہیں جب کہ اقوام متحدہ بھی اپنے 52 ملازمین کو کھو کر اس اجتماعی بربریت کا شکار ہوچکی ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ ایران اور اس سرزمین کی تاریخ کا بہت احترام کرتے ہیں کہا کہ ایران کو نئے مشرق وسطیٰ کے اہم ستونوں میں سے ایک ہونا چاہیے اور خطے میں امن کے حصول میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔