مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان اور کرمان میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے عراق اور شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون اور میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ ان حملوں میں 1200 کلومیٹر کے فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل استعمال کئے گئے۔
حملے سے پہلے ایران نے دہشت گردوں کے سرپرست امریکہ اور اسرائیل کو کئی بار انتباہ کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے پروپیگنڈوں کے باوجود مبصرین نے ان حملوں کو ایران کا دفاع قرار دیا۔
عراقی امور کے بارے میں مطالعاتی مرکز کے سربراہ سید محمد صادق الہاشمی نے سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے حوالے سے مہر نیوز سے گفتگو کی جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
مہر نیوز؛ سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے ادلیب اور اربیل میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
صادق الہاشمی: میرے خیال میں ایران سمیت دنیا کا ہر ملک داخلی اور خارجی سطح پر خود کو درپیش خطرات کا مقابلہ اور اپنا دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور میں واضح طور پر ذکر ہے۔ ایران واحد ملک ہے جس کو صہیونی حکومت جیسے دشمن کی طرف سے سلامتی کے حوالے سے براہ راست خطرات کا سامنا کررہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران نے اسلام اور انقلاب اسلامی کو اسرائیل کی جانب سے درپیش خطرات اور سازشوں کو ناکام بنانے میں استقامت سے کام لیا ہے۔ امریکہ نے خطے میں خفیہ جاسوسی کے اڈے بنارکھے ہیں۔ ان اڈوں اور مراکز سے ایران پر حملے ہوتے ہیں۔ ایران سے مقابلہ کرنے کے لئے ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔
مہر نیوز؛ مغربی صہیونی طاقتوں نے ایک طرف ہمیشہ ایران اور ہمسایہ ممالک کے اختلافات ایجاد کئے اور دوسری طرف دہشت گردوں کو پناہ دے کر خطے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کی۔ حالیہ حملوں کی وجہ سے ایران اور اس کے ہمسایہ ممالک کے تعلقات پر کیا اثرات پڑسکتے ہیں؟
صادق الہاشمی: ایران اپنے تعلقات کے حوالے سے تین اصولوں کا پابند ہے؛ اسلامی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ہمسایہ ممالک کا احترام، داعش کے خلاف حملوں میں ہمسایہ ممالک مخصوصا عراق کی مدد اور تجاوزات سے گریز کرتے ہوئے تعلقات میں توسیع لیکن افسوس کے ساتھ امریکہ ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی تعلقات کو بہتر دیکھنا نہیں چاہتا ہے چنانچہ صدام حسین کو اسی مقصد کے تحت استعمال کیا گیا اور آج اربیل کو ایران کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ ایران کے پاس بھی حملوں کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ اگر ایران عراقی کردستان پر تجاوز کرنا چاہتا تو شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس پر حملے کے دوران مسعود بارزانی کے اعتراف کے باوجود اس کی ہرگز حمایت نہ کرتا۔ ایران نے اربیل کے حکام کو کئی دفعہ خطوط کے ذریعے امریکی اور اسرائیلی دہشت گردوں کو پناہ اور ٹھکانہ دینے پر تحفظات کا اظہار کیا لیکن اربیل نے حوصلہ افزا جواب نہیں دیا۔ آج ترکی اور ایران کے عراقی کردستان پر حملوں کی بنیادی وجہ اربیل حکومت ہے۔ اربیل حکومت کے لئے بہتر یہی ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ کسی قسم کے تنازعات میں نہ پڑے۔
مہر نیوز؛ سپاہ پاسداران کے حملے اچانک ہوئے یا ایران کی دھمکیوں کا جواب نہ دینے کا نتیجہ ہے؟
صادق الہاشمی: نہیں، خطے میں موساد اور امریکی خفیہ ایجنسی کی سرگرمیاں محدود کرنے کے بارے میں کئی مرتبہ کوششیں ہوئیں اور مذاکرات ہوئے لیکن بدقسمتی سے کوئی عملی نتیجہ برامد نہیں ہوا اس کی وجہ سے حالات ان نہج پر پہنچے کہ ایران کو دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنا پڑا۔
میر نیوز؛ خطے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سپاہ پاسداران کے حملوں کا سب سے اہم دفاعی اور فوجی پیغام کیا ہوسکتا ہے؟
صادق الہاشمی: ان حملوں کے ذریعے ایران اور مقاومت اسلامی نے دشمنوں اور دوستوں کو پیغام دیا ہے کہ اپنی سرحدوں اور اسلامی مفادات کے تحفظ کے لئے ان کے عزم اور ارادے مستحکم ہیں۔ چنانچہ کوئی ان کی سلامتی اور مستقبل کے حوالے سے خطرہ بن جائے تو اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے۔
علاوہ ازین ایران اور مقاومت نے خطے میں اپنی موجودگی کو تقویت بخشنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی عزت اور مقام کا دفاع کرسکیں۔ میری نظر میں ان حملوں کے ذریعے ہمسایہ ممالک کو اہم پیغام دیا گیا ہے کہ دشمنوں کے جاسوسی کے مراکز بننے سے گریز کریں۔