مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، لبنانی روزنامہ الاخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں تحریک حماس اور القسام بریگیڈز کے عسکری ترجمان ابو عبیدہ کی کرشماتی شخصیت کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابو عبیدہ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں حتی ان کی تاریخ پیدائش یا جائے پیدائش کے بارے میں بھی معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ جس کی بنیاد پر ان کی فکری بنیادوں کا تعین کیا جا سکے۔
ان کا صرف ایک ہی معروف حلیہ ہے کہ جس سے ہم سب آشنا ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے چہرے پر سرخ ماسک پہنتے ہیں جو فلسطین کی ثقافت اور تاریخ کی نمائندگی کرتا ہے، یہی حلیہ ان کے فلسطینی تشخص کا آئینہ دار ہے۔ یہ ایک ہتھکنڈے اور دکھاوے سے بڑھ کر عملی نوعیت کا اظہار ہے جو فلسطین کے دفاع کے راستے پر اپنے پختہ یقین کو ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے بیانات کے آخر میں ہمیشہ فتح یا شہادت کے حصول کے لیے فلسطین کے راستے پر جہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو کہ شہید عزالدین القسام کے کلام سے لیا گیا ہے۔
ابو عبیدہ پہلی بار 2002 میں اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے نظر آئے۔ یہ طریقہ القسام بریگیڈز کے سابق سربراہ "عماد عقل" سے لیا گیا ہے جسے صیہونی حکومت نے 1993 میں گرفتار کیا تھا۔
ابو عبیدہ نے اس وقت سے لے کر طوفان الاقصیٰ آپریشن تک اپنی آواز کا کرشمہ جاری رکھا اور ثابت کیا کہ ان کے پاس ایک خاص میڈیا اسکول آف تھاٹ ہے جو صیہونی حکومت کی میڈیا رجیم پر پوری طرح حاوی ہے۔
2014 میں، عبرانی میڈیا نے شباک کے حکم پر ایسی تصاویر شائع کیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ابو عبیدہ سے متعلق ہیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں "حدیفہ سمیر عبداللہ کحلوت" کا نام لکھا گیا تھا، جس کے بارے میں صہیونی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ابو عبیدہ کا اصلی نام ہے، تاہم تحریک حماس نے اس کی تردید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ معلومات غلط اور بے بنیاد ہیں۔
2021 میں سیف القدس کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ابو عبیدہ ایک میڈیا ٹائیکون بن گئے اور اردن کی نوجوان نسل نے ان کی تقاریر کو بڑے شوق سے سنا اور مساجد نے ان تقاریر کو اپنے لاؤڈ اسپیکر سے نشر کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں سن سکیں۔ مصر میں اس حوالے سے بہت سے تقریریں نشر کی گئیں کہ جنہیں بچے دہراتے تھے۔ الجزائر میں اسکول کے بچوں نے اپنے ڈراموں میں ان کے کردار کو نبھانے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کیا اور لبنان میں خاص طور پر بقاع کے علاقے میں اسکول کے امتحانی سوالات میں ان کے حوالے سے تعارفی مواد شامل کیا گیا اور انھیں امت اسلامی کے ترجمان کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو عبیدہ مسلم قوم کے اجتماعی عزم کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنا بیان 7 اکتوبر کی صبح جاری کیا لیکن 25 اکتوبر سے 10 دسمبر کے دوران میڈیا میں کوئی بیان نہیں دیا اور اس طرح صیہونی حکومت کے میڈیا نے یہ افواہیں پھیلائیں کہ وہ زخمی یا مارے گئے ہیں تاہم اس دوران وہ میڈیا میں نظر آئے اور اعلان کیا کہ مزاحمتی فورسز عارضی جنگ بندی کے بعد دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد صیہونی فوجیوں کی 180 گاڑیوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ نفسیاتی آپریشن موجودہ جنگ کے آخری دو مہینوں میں ہونے والے پچھلے تمام واقعات کے مقابلے میں دشمن پر بھاری حملہ تھا۔