مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ 1948 سے صہیونی حکام کوشش کررہے ہیں دنیا کے مختلف کونوں میں بسنے والے یہودیوں کو اسرائیل کی طرف راغب کریں۔ یہودیوں کو فلسطین میں محصور کرنے کی اس کوشش کے باوجود یہودی اس علاقے میں آنے پر راضی نہیں بلکہ یہاں آکر بسنے والے بھی واپس جانے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں۔
اگرچہ طوفان الاقصی کے نتیجے میں یہودیوں کی واپسی کا عمل تیز ہوگیا ہے تاہم یہ سلسلہ گذشہ کئی سالوں سے مختلف وجوہات کی بناپر جاری ہے۔
صہیونی وزیراعظم کی عدالتی اصلاحات کے خلاف وسیع مظاہرے شروع ہونے کے بعد صہیونی چینل 12 نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بحران میں اضافے اور حالات کے بارے میں تشویش کی وجہ سے 33 فیصد صہیونی مقبوضہ فلسطین سے نکلنا چاہتے ہیں۔
اسرائیل ڈاکٹروں کی تنظیم نے وزارت صحت کے سربراہ کے ساتھ ہنگامی اجلاس میں آگاہ کیا کہ اب تک کم از کم 500 صہیونی ڈٓکٹر مقبوضہ علاقوں کی صورتحال تشویشناک ہونے کی وجہ سے اسرائیل کو چھوڑ رہے ہیں۔
مقبوضہ بیت المقدس میں قائم صہیونی ادارے نے انکشاف کیا تھا کہ 70 فیصد اسرائیلی دوسرا پاسپورٹ لینے کی خواہش رکھتے ہیں جبکہ روزنامہ ہارٹز کی رپورٹ کے مطابق 2015 کے بعد 17 ہزار افراد نے اسرائیل کو خیرباد کہہ دیا ہے۔
اس کے بعد روزنامہ معاریو نے خبر دی تھی کہ 2020 تک 7 لاکھ 56 ہزار یہودی اسرائیل کی اقتصادی مشکلات اور سیکورٹی خدشات کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں سے ہجرت کرکے مختلف ملکوں میں مقیم ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب بیرونی ممالک سے اسرائیل کی طرف یہودیوں کی آمد کا سلسلہ بھی سست ہوچکا ہے۔
صہیونی ادارے نافش بن نافش نے کہا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ سے آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں آباد یہودیوں کی آمد میں آنے والی کمی کے پیش نظر اسرائیلی وزارت مہاجرت نے صہیونیوں کے ادارے کے افراد کو مختلف ممالک میں آباد یہودیوں کے پاس بھیجنا شروع کیا ہے تاکہ ان کو اسرائیل جانے پر راغب کرسکیں۔
اسرائیلی سے یہودیوں کی واپسی کا دور دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ طوفان الاقصی سے پہلے ہجرت کی بنیادی وجہ اندرونی صورتحال تھی جس میں اقتصادی مشکلات سرفہرست ہیں جبکہ طوفان الاقصی کے بعد ہجرت کی وجہ سے بیرونی عوامل ہیں۔
جنگ سے پہلے صہیونی حکومت کے داخلی حالات اس قدر بحران زدہ تھے کہ داخلی جنگ کا خطرہ درپیش تھا۔ مئی میں ہونے والے ایک سروے میں کہا گیا تھا کہ 58 فیصد اسرائیلی داخلی جنگ کے خوف میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے فلسطین کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔
علاوہ ازین اقتصادی اور معاشی صورتحال نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور 36 فیصد اقتصادی بحران کی وجہ سے اسرائیل چھوڑنے کے درپے تھے۔
صہیونی نقل مکانی کو متاثر کرنے والے دیگر عوامل میں اقتصادی اور معاشی مسائل بھی ہیں۔ جس طرح طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے سروے میں حصہ لینے والوں میں سے 36 فیصد نے اس بات پر زور دیا کہ وہ معاشی بحران سے پریشان ہیں۔ یہ بحران جو نتن یاہو کی مبینہ عدالتی اصلاحات کی منظوری کے بعد مزید شدید ہوا۔ معاشی صورتحال کی خرابی، مزدوروں کی وسیع ہڑتالیں، ایک سال سے بھی کم عرصے میں نویں بار بینکوں کی شرح سود میں اضافہ اور سرمائے کی منتقلی میں 10 گنا اضافہ ان معاملات میں شامل تھے۔
الاقصی طوفان کے بعد معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہو گئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے۔
کچھ عرصہ قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا تھا کہ الاقصی طوفان آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760,000 اسرائیلی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس اعداد و شمار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اس سے قبل صیہونی حکومت کے مرکزی ادارہ شماریات کی طرف سے الاقصی آپریشن اور غزہ جنگ کے تیسرے ہفتے میں کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے شمال اور جنوب میں 65 فیصد کمپنیاں 50 فیصد سے زیادہ آمدنی کھو چکی ہیں۔
اس معاشی افراتفری کی وجہ سے 300 سینئر صہیونی ماہرین نے خبردار کیا کہ صہیونی حکومت کی معیشت مشکل وقت سے گزر رہی ہے لہذا نیتن یاہو کی کابینہ کو اقتصادی صورت حال کی خرابی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئے۔
اسرائیلی صنعتکاروں کی انجمن نے جنگ کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو پہنچنے والے نقصانات اور بھاری مالی جھٹکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت نے اپنے لوگوں کو چھوڑ دیا اور ان کی تلافی کی کوشش نہیں کی۔
مجموعی طور پر صیہونی حکومت کی معیشت پر الاقصی طوفان آپریشن کے تباہ کن نتائج مرتب ہوئے ہیں جن میں سے تیل، گیس اور ریفائنری کے شعبے میں سرمایہ کاری میں کمی، بندرگاہوں کے ذریعے برآمدات اور درآمدات کا رک جانا، بستیوں کی تعمیر جیسے بڑے تعمیراتی منصوبوں کا رک جانا، جنگی اخراجات کے لیے قرضے لینے کی وجہ سے فنڈز کی کمی، افرادی قوت میں کمی، اسٹاک مارکیٹ میں عدم استحکام، غذائی تحفظ میں کمی، ملکی کرنسی کی قدر میں کمی، اور سیاحت اور سیاحت کی آمدنی میں کمی قابل ذکر ہیں۔
خلاصہ
اگرچہ صہیونیوں کی آبائی ملکوں کی جانب واپسی کا عمل کئی سالوں سے جاری تھا تاہم غزہ کی جنگ کے بعد اس میں تیزی آئی ہے جوکہ طوفان الاقصی کا سب سے بڑا اثر ہے۔ جنگ سے پہلے صہیونیوں کے اسرائیل سے انخلاء کی بنیادی وجہ اندرونی صورتحال تھی جس میں سیاسی عدم استحکام، فوج میں بدنظمی اور کرپشن شامل ہیں۔ نتن یاہو کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے متنازع منصوبے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس منصوبے سے واضح ہوگیا کہ نتن یاہو اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
طوفان الاقصی کے بعد پہلے سے جاری بحران کی شدت میں دوگنا اضافہ ہوا۔ ساڑھے سات لاکھ افراد کی بیروزگاری سے 18 فیصد ہوگئی۔ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کم ہونے سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔
اقتصادی اور معاشی مشکلات کے بعد سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنے کے علاوہ بدامنی کا شکار ہیں۔
ہر لمحہ مقاومت کے میزائل حملوں کا خوف صہیونیوں کو کھائے جارہا ہے۔ ان واقعات نے آرمانی سرزمین پر ان کی واپسی کا خواب چکنا چور کرکے رکھ دیا ہے۔