مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کا تجزیہ جہاں سیاسی و سیکورٹی مسائل پر مرکوز ہے، وہیں یہ جنگ مقبوضہ علاقے کی اقتصادی صورت حال کی خرابی کی شکل میں تل ابیب کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ ایک ایسا تباہ کن اور بھاری نقصان کہ جس کی گہرائی کا شاید صیہونی رجیم کے حکام کو حملے سے پہلے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔
شدید معاشی کساد بازاری سے مالی بحران اور بجٹ خسارے تک
حالیہ ہفتوں میں صہیونی معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں مغربی خبری ذرائع سے بہت سی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔ یہ صورتحال غزہ کی پٹی میں اس رجیم کے جرائم اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے ساتھ تنازعات کا نتیجہ ہے۔
اسی سلسلے میں امریکہ کی یونائیٹڈ پریس ایجنسی نے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی "S&P" کی نئی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ صیہونی حکومت حماس کے ساتھ جنگ کے ہفتوں کے دوران شدید اقتصادی بحران اور مالیاتی خسارے کا شکار ہے۔ جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اس جنگ کے مالی اخراجات سے ہے۔
ایس این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق حماس کے ساتھ تنازع کے بعد جیو پولیٹیکل اور سیکورٹی خطرات میں اضافے کی وجہ سے اس سال کی چوتھی سہ ماہی میں صیہونی حکومت کی معیشت میں پانچ فیصد کساد بازاری رہی۔
ریٹنگ ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کاروباری سرگرمیوں اور صارفین کی طلب میں کمی اور سرمایہ کاری کے غیر یقینی ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ حکومت کا مالیاتی خسارہ 2023 اور 2024 کے دوران جی ڈی پی کا 5.3 فیصد رہے گا حالانکہ جنگ سے پہلے کے اندازوں میں مالیاتی خسارہ 2.3 فیصد ظاہر کیا گیا تھا۔
مذکورہ ایجنسی کے مطابق صیہونی حکومت کے زیادہ تر اخراجات جنگ اور غزہ کی سرحد کے قریب کمپنیوں کو معاوضے کی ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ متاثرین کے خاندانوں سے متعلق ہیں جو بجٹ کے خسارے کا باعث بنتے ہیں۔
اسی سلسلے میں بلومبرگ میگزین نے حماس کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے اخراجات کا حوالہ دیتے ہوئے غزہ پر اس حکومت کے حملے کے طول پکڑنے کو اسرائیل کے اقتصادی بحرانوں اور اس کے وزیراعظم کی سیاسی ناکامی کا سبب قرار دیا ہے۔
اس امریکی میگزین کے مطابق حماس کے ساتھ اسرائیل کا تنازعہ، جو کہ گزشتہ نصف صدی میں اس رجیم کا سب سے مشکل اور مسلح تنازعہ ہے، بجٹ کی کسی بھی رقم کو ترجیح دیتا ہے اور اتحادی فنڈز اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ مارکیٹیوں کی طرف سے نیتن یاہو کی کابینہ کو کتنی رقم مختص کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت کی وزارت خزانہ کے اندازوں کے مطابق نیتن یاہو کی کابینہ کو اب تک تقریباً 8 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
اگرچہ صیہونی حکومت کو جنگ کی ادائیگی کے لیے بانڈز کی ضرورت بڑھ رہی ہے، تاہم عالمی تاجروں کا کردار خاصا اہم ہو تا جا رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر میں صیہونی حکومت کا بجٹ خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے میں سات گنا سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور اس حکومت کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ گزشتہ ماہ کے مقابلے نومبر میں 75 فیصد زیادہ قرض لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مذکورہ امریکی میگزین میں مزید کہا گیا ہے: اسرائیل کے سرکاری بانڈز کے بیمہ کی لاگت جنگ شروع ہونے سے پہلے کی لاگت سے دوگنا ہے۔
نیز، مغربی کنارے میں مذہبی پروگراموں اور بستیوں کے لیے بھاری بجٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا تھا کہ اس جنگ نے صیہونی حکومت کی 520 بلین ڈالر کی معیشت کو تبدیل کر دیا۔
روزگار کا بحران، مارکیٹوں کی بندش اور تعمیراتی منصوبوں کا تعطل
غزہ جنگ کے جاری رہنے سے مقبوضہ علاقوں میں اقتصادی اور تجارتی منڈیوں کو جمود اور بندش کا سامنا ہے۔ مزدوروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ٹھیکیداروں اور کاریگروں وغیرہ نے پراجیکٹس پر کام روک دیا ہے۔
رائٹرز نے"غزہ جنگ نے اسرائیل کی معیشت کو غیر یقینی صورت حال کی طرف دھکیل دیا ہے" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں اس بگڑتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: "افرادی قوت ختم ہو چکی ہے، راکٹ فائر الارم مسلسل بج رہا ہے، ایک غیر متوقع حملے کا خدشہ دامن گیر ہے۔ وہ کرینیں جو ہمیشہ تل ابیب کی ترقی کو نشاندہی کرتی تھیں شہر میں تعمیراتی بند ہونے کے باعث کئی دنوں سے کھڑی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف اس شعبے میں تعطل کی وجہ سے صیہونی حکومت کی معیشت پر روزانہ تقریباً 150 ملین شیکل (37 ملین ڈالر) کا نقصان ہو رہا ہے اور حکومتی معماروں کی انجمن کے سربراہ "راؤل سروگو" کے مطابق۔ , "حقیقت یہ ہے کہ شیکل گرا ہے تو یہ صرف ٹھیکیداروں یا یہ کاریگروں کے لیے ہی ایک دھچکا نہیں ہے بلکہ اسرائیل کے ہر خاندان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
دوسری جانب "بلومبرگ" نے رپورٹ دی ہے کہ حماس کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ سے اس حکومت کی معیشت کو روزانہ تقریباً 260 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
ایسے میں فوج کے لاکھوں ریزرو اہلکار طلب کیے گئے ہیںاور خوردہ فروش اور ملازمین بھی چھٹیاں لے رہے ہیں۔
اس جنف نے غزہ سے ہزاروں فلسطینی کارکنوں کی مقبوضہ علاقوں کی طرف نقل و حرکت بھی روک دی ہے۔ اس لیے اس جغرافیائی علاقے میں بازار ویرانی اور جمود کا شکار ہے۔
ملکی اور غیر ملکی سرمائے کے فرار سے بحران بڑھنے لگا ہے
حکومت کی معیشت پر تل ابیب اور حماس کے درمیان حالیہ تنازعات کے اہم اثرات میں سے ایک مقبوضہ علاقوں سے ملکی اور غیر ملکی سرمائے کا ایک قابل ذکر فرار ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے سے مختلف رپورٹس شائع ہوئی ہیں، مثلاً بحیرہ روم کے پانیوں میں اس حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تیل کے میدانوں کو تیار کرنے کے لیے مغربی آئل کمپنیوں کے تل ابیب کے ساتھ مذاکرات معطل ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں دنیا بھر سے متعدد کاروباری کارکن جو مقبوضہ علاقوں میں سرگرم ہیں سکیورٹی وجوہات کی بناء پر وہاں سے چلے گئے ہیں اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ جلد ہی کسی بھی وقت مقبوضہ علاقوں میں واپس آنے کا سوچیں گے۔
غیر ملکی سرمائے کے جانے کے ساتھ ساتھ ملکی سرمایہ بھی اسرائیل سے نکل جانے کا رجحان رکھتا ہے۔ مختلف اعدادوشمار کے مطابق بالخصوص مقبوضہ علاقوں میں یورپی امیگریشن ایجنسیوں کی جانب سے صہیونی شہریوں کی بیرون ملک ہجرت کی شرح جو الاقصیٰ طوفان آپریشن سے پہلے بڑھ رہی تھی اب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
حال ہی میں امریکی خبر رساں ایجنسی "بلومبرگ" نے اطلاع دی ہے کہ گزشتہ ماہ صیہونی غاصب حکومت کے غیر ملکی ذخائر میں سات ارب ڈالر سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ امریکی اخبار "فنانشل ٹائمز" نے بھی غزہ کی پٹی میں جنگ کی وجہ سے صیہونی حکومت کے معاشی جمود کی خبر دی ہے اور مالیاتی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیلی معیشت کو درپیش معاشی جمود اسی طرح کا ہے جو کورونا وباء کے دوران ہوا تھا۔
یہ بحران مالیاتی منڈیوں میں اسٹاک مارکیٹ کے گرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز سے تل ابیب اسٹاک ایکسچینج میں شامل پانچ سب سے بڑے بینکوں کے حصص میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں نے حکومت کی لسٹڈ کمپنیوں میں اپنے حصص فروخت کر دیئے خاص طور پر ملکی مارکیٹ میں سرگرم بینکوں کے حصص بیچنے کا سلسلہ شدت سے جاری ہے۔
ادھر صیہونی حکومت کے پانچ بڑے بینکوں کے حصص بھی غزہ جنگ کے دوران متاثر ہوئے اور 20 فیصد تک گر گئے جن میں بینک لیومی، بینک ہاپوالیم، ڈسکاؤنٹ بینک، میزراحی تفاہت بینک اور اسرائیل کا پہلا بین الاقوامی بینک شامل ہیں۔
نتیجہ کلام
غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کو شروع ہوئے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور مقبوضہ علاقے روز بروز غیر محفوظ ہوتے جا رہے ہیں جب کہ غاصب رجیم کے اقتصادی اخراجات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے حکومت کی معیشت روزانہ تقریباً 260 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس جنگ اور اس کے اثرات اور نتائج پر صیہونیوں کو 200 بلین شیکل (حکومت کی کرنسی) 51 بلین ڈالر کے برابر لاگت آئے گی۔
مقبوضہ علاقوں میں معاشی بحران اس حد تک پھیل گیا ہے کہ حکومت کی وزارت خزانہ نے پیش گوئی کی ہے کہ فلسطینی مزاحمت کے ساتھ جنگ، اس کے اثرات اور نتائج کووِڈ 19 سے کہیں زیادہ وسیع اور 10 فیصد کے برابر ہوں گے۔
جس میں حکومت کی مجموعی گھریلو پیداوار میں کمی، مجموعی طور پر اسٹاک مارکیٹ کا گرنا، شیکل کی قدر میں کمی، ہزاروں اسرائیلی کمپنیوں کا بند ہونا، روزگار کا بحران اور صیہونیوں کے پانچویں حصے کی یقینی بے روزگاری، حکومت کی کمپنیوں کی آمدنی میں 50 فیصد کمی، ایک تہائی کاروبار کی بندش، جنگ سے اب تک 8 ارب ڈالر کا نقصان اور صنعت اور سیاحت کو ایک غیر معمولی دھچکا، غزہ پر حکومت کے جارحانہ حملوں کے براہ راست نتائج کی چند مثالیں ہیں۔
یقیناً توقع ہے کہ غزہ جنگ کے تسلسل اور شدت کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت کی اقتصادی حالت کی خرابی میں بھی اضافہ ہوگا اور ہم ملکی اور غیر ملکی سرمائے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے فرار کا مشاہدہ کریں گے۔
ایسا تباہ کن بحران کہ تل ابیب کے حکام کے 45 بلین ڈالر مارکیٹ میں لانے جیسے اقدامات سے بھی جس گہرائی اور پھیلا کو نہیں روکا جاسکتا۔