مہر خبررساں ایجنسی نے رائ الیوم کے حوالے سے کہا ہے کہ صہیونی وزیراعظم نتن یاہو فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے ساتھ جاری جنگ کو روکنے سے مسلسل انکار کررہے تھے۔ تیرہ مرتبہ انکار کے بعد آخر کس وجہ سے انہوں نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔
اخبار میں رلی ایلفرا الحروب نے اپنے کالم میں کچھ دلائل اور پہلووں کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی وجہ سے نتن یاہو اب تک جنگ بندی کے مخالف تھے۔
پہلا: جنگ بندی اس وقت حماس کی کامیابی سمجھی جاتی جو نتن یاہو اور ان کی کابینہ کے لئے کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں تھا۔ صہیونی حکومت نے جنگ کے آغاز میں جو اہداف بیان کیئے تھے ان میں سے کوئی بھی حاصل نہیں ہوا ہے جبکہ حماس نے اپنے قیدیوں کی رہائی اہم ترین ہدف قرار دیا تھا۔ اس طرح قیدیوں کا تبادلہ حماس کی کامیابی سمجھی جاتی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے مقاومتی تنظیم کو مستقبل میں بھی طوفان الاقصی جیسی کاروائی کا حوصلہ مل جاتا۔ حماس کے پاس ان سویلین قیدیوں کی موجودگی کی وجہ سے حماس پر سیاسی اور میڈیا کی سطح پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلے کی وجہ سے گویا حماس نے اپنی اس ذمہ داری کو کامیابی کے ساتھ ادا کیا۔
قیدیوں کے تبادلے کے لئے جنگ بندی لازمی تھی جب کہ صہیونی حکومت اور حکام اس کے مخالف تھے کیونکہ حماس کے اعلی رہنماوں کو ختم کرنے میں صہیونی حکومت کو کامیابی نہیں ملی تھی اسی طرح عوام اور حماس کے درمیان بھی جدائی اور دوری ایجاد کرنے میں بری طرح ناکام تھی۔
تیسرا: نتن یاہو اور صہیونی حکام صہیونی قیدیوں کو مغربی ممالک کے پاس ایک دلیل کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اپنے لئے حمایت حاصل کرسکیں۔ صہیونی حکومت کے حامی ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے تجزیاتی اور تحقیقاتی رپورٹس تیار کی تھیں تاکہ غزہ میں صہیونی حکومت کے قتل عام کی توجیہ کی جاسکے۔
چوتھا: صہیونی حکومت صہیونی قیدیوں کے مسئلے کو سامنے رکھ کر چھوٹے دعوے کرسکے کہ صہیونی شہریوں کی جان کا مسئلہ ہے لہذا مقاومتی گروہوں پر حملہ لازمی ہے۔
پانچواں: نتن یاہو اور ان کی کابینہ کے اراکین فلسطینی اور اسرائیلی سویلین کی جان کے لئے کسی اہمیت کے قائل نہیں ہیں۔ وہ لوگ اپنے مفادات کے لئے دوسروں کا قتل عام اور نسل کشی جائز سمجھتے ہیں۔ اسرائیل حماس سے مقابلے کی آڑ میں فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
چھٹا: شدید اقتصادی مشکلات اور خسارے کے باوجود نتن یاہو جنگ کا دائرہ بڑھانے کی کوشش کررہے تھے کیونکہ اس کو پھیلانا اپنی کامیابی کی علامت اور مستقبل میں سیاسی فوائد کا باعث سمجھتے تھے۔ نتن یاہو مالی بدعنوانی اور دیگر مقدمات میں عدالت میں پیش ہونے والے تھے اس میں ان کو سیاسی نقصان ہوسکتا تھا۔ جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ ان کے لئے بہتر نہیں تھا علاوہ ازین حماس کے لئے یہ ایک فرصت میں بدل جاتی۔
ساتواں: نتن یاہو قطر کے بجائے مصر کو ثالث بنانا چاہتے تھے اس طرح غزہ میں مصر کو اپنا شراکت دار قرار دے سکیں اور مصر مقاومتی تنظیموں کے خلاف دباو بڑھانے پر مجبور ہوجائے لیکن یہ سب آرزوئیں پوری نہ ہوسکیں اور بین الاقوامی سطح پر درپیش دباو کی وجہ سے صہیونی حکومت کو بالاخر جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔