صدر رئیسی نے کہا کہ ہم شروع سے ہی امریکہ کی جانب سے غیر ملکی بینکوں میں منجمد ایرانی بینکوں کی رقوم کو ایران واپس لانے کی کوشش کررہے تھے۔ امریکہ نے ایرانی عوام پر دباو بڑھانے کے لئے یہ ظالمانہ اقدام کیا تھا۔ ہم پابندیوں کو ہماری قوم کے خلاف حربہ سمجھتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے امریکی ٹی وی چینل این بی سی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے قیدیوں کے تبادلے، ایرانی اثاثوں کی بحالی، گذشتہ سال کے فسادات، امریکہ اور بعض دیگر ممالک کی جانب سے جنسی مسائل کو دباو بڑھانے کے لئے آلے کے طور پر استعمال کرنا، یوکرائن جنگ کے بارے میں ایران کا موقف، عوام میں صہیونی حکومت کے خلاف غم و غصے کی شدت کے پیش نظر خطے  کے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی صہیونی کوششوں کی ناکامی اور ایران کی رکنیت کے بعد برکس کی طاقت میں اضافے جیسے موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ذیل میں انٹرویو کا پورا متن پیش کیا جارہا ہے؛

نامہ نگار: سلام کے بعد انٹرویو کے لئے وقت دینے کا شکریہ، اپنے سوالات کا آغاز 5 قیدیوں کے بارے میں سوال سے کرنا چاہتا ہوں، موجودہ حالات اور وقت کے حوالے سے اس کے بارے میں کچھ بتائیے۔

صدر رئیسی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ہم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قیدیوں کے تبادلے کو آگے بڑھایا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں قید ایرانیوں کو بے گناہ گرفتار کیا گیا ہے لہذا فوری طور پر آزاد ہونا چاہئے اسی لئے ہم نے ان کی آزادی کے لئے اقدام کیا ہے۔ ایران میں قید امریکیوں کا ایرانی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ ان کی آزادی کے لئے ابتدائی کام انجام دیا جارہا ہے۔

یہ قیدی خیریت سے ہیں چنانچہ اس حوالے سے آخری رپورٹ سے بھی تایید ہوگئی ہے۔ بنیادی طور پر ایران میں قیدیوں کے لئے سہولیات امریکہ سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ میں قیدیوں کے لئے مناسب سہولیات نہیں دی جاتی ہیں جبکہ ایران میں ضروری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ قیدیوں کے بارے میں رپورٹس سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ہماری تحقیقات کے مطابق ان قیدیوں پر باقاعدہ فرد جرم عائد کیا گیا ہے اور عدالتی کاروائیوں کا سامنا کرچکے ہیں۔ ان میں سے بعض کو عدالت کی جانب سے سزا بھی سنائی گئی ہے جس کی اعلی عدلیہ نے بھی توثیق کی ہے۔ اس سلسلے میں امریکیوں کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ان افراد پر عائد الزامات عدالت میں ثابت ہوچکے ہیں۔

نامہ نگار: آپ کہتے ہیں کہ جنوبی کوریا میں ایرانی اثاثوں کو غلطی سے منجمد کیا گیا ہے جبکہ طے یہ پایا گیا ہے کہ انسانی ہمدردی کے مقاصد اور دوائی اور غذائی امور میں استعمال کیا جائے گا؛ کیا آپ کے خیال میں ان کو ایران اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرسکتا ہے؟

صدر رئیسی: ہم شروع سے ہی امریکہ کی جانب سے غیر ملکی بینکوں میں منجمد ایرانی بینکوں کی رقوم کو ایران واپس لانے کی کوشش کررہے تھے۔ امریکہ نے ایرانی عوام پر دباو بڑھانے کے لئے یہ ظالمانہ اقدام کیا تھا۔ ہم پابندیوں کو ہماری قوم کے خلاف حربہ سمجھتے ہیں۔ ہر قسم کی پابندی اور ایرانی رقوم تک رسائی سے روکنے کی کوششیں اقتصادی جنگ کا حصہ ہے لہذا ہم نے شروع سے ان رقوم کی واپسی کے لئے کوششیں شروع کیں۔ یہ ایران کا حق تھا اور اس ظلم کو جلد ختم ہونا چاہئے۔ 

قیدیوں کے بارے میں بھی چنانچہ عرض کیا کہ ان پر عائد الزامات یقینی تھے جو مختلف عدالتی مراحل میں ثابت ہوچکے تھے۔ امریکہ کو ظالمانہ اور دشمنی پر مبنی اقدامات سے دستبردار ہونا چاہئے اور ایران اور ایرانی عوام کے پیسوں کو جلد آزاد کرنا چاہئے۔ اثاثوں کی بحالی کا کام بہت پہلے انجام پانا چاہئے تھا۔ یہ اثاثے ایران کے ہیں لہذا اپنی صوابدید کے مطابق ان کو استعمال کیا جائے گا۔ ان کے استعمال کا وقت ایران کی مرضی سے مقرر ہوگا۔ چونکہ یہ اثاثے ایران اور ایرانی عوام کے ہیں لہذا اس کے استعمال کے بارے میں فیصلے کا حق بھی ایرانی حکومت کو حاصل ہے۔ انسانی ہمدردی کا مطلب آج کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ حکومت اسی مقصد کے لئے استعمال کرے گی جس کی تشخیص کا حق ایرانی حکومت کو حاصل ہے۔

نامہ نگار: جناب صدر! صدر ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ نے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی۔ اگر حالات سازگار ہوں تو کیا ٹرمپ کے ساتھ دوبارہ میز پر بیٹھ کر نئے معاہدے کے بارے میں مذاکرات کریں گے؟

صدر رئیسی: ہم نے ہمیشہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے کوششیں کیں اور مذاکرات کی میز کو بھی نہیں چھوڑا۔ اس مسئلے میں امریکہ نے پہلے معاہدہ توڑا ہے۔ یورپی ممالک نے بھی وعدے پر عمل نہیں کیا۔ ایران تھا جس نے اپنے وعدوں پر پوری طرح عمل کیا۔ آئی اے ای اے نے اب تک 15 مرتبہ اعلان کیا ہے کہ ایران کے اقدامات صلح آمیز ہیں اور ایرانی جوہری سرگرمیوں میں کوئی انحرافی مورد پیش نہیں آیا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ امریکی عوام کو اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہئے کہ ایران کے صلح آمیز رویے کے باوجود اس کے خلاف ظالمانہ پابندیوں کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟

معاہدے کو کیوں توڑا اور کیوں وعدہ خلافی کی؟ کیا معاہدوں میں تمام فریقوں کا وعدوں پر پابند رہنا ضروری نہیں ہے؟ امریکی عوام کو اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہئے کہ وعدہ کیوں توڑا؟ کیا معاہدے کے ایک فریق کو وعدہ خلافی کا حق ہے؟ کیا کسی کو برسراقتدار آنے  کے بعد یہ کہنے کا حق ہے کہ معاہدے سے نکل جائیں گے؟

پس امریکیوں نے سب سے پہلے معاہدے کو توڑا اور نہ مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ عہد شکنی کی۔ ایرانی عوام کو یہ حق دیں کہ امریکہ پر اعتماد نہ کریں۔

یورپی ممالک نے کیوں اہنے وعدے پر عمل نہیں کیا؟ صحافیوں کو چاہئے کہ یورپی ممالک سے یہ سوال کریں۔ کیا وہ معاہدے میں شریک نہیں تھے اور اپنے وعدوں پر عمل کیوں نہیں کیا؟امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں ایران نے اپنے وعدوں پر عمل کیا۔ یہ میرا دعوی نہیں ہے بلکہ عالمی جوہری ادارے کا بھی یہی بیان ہے۔ یہ سب معترف ہیں کہ ایران نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ پس جب وعدوں پر عمل کیا گیا ہے تو پابندیاں کیوں جاری ہیں بلکہ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

جہاں تک پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات کی بات ہے، ہم نے کبھی مذاکرات کی میز کو نہیں چھوڑا ہے کیونکہ ہمارا موقف حق اور منطقی تھا جس کا ہم ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ایران کا موقف معقول ہے لیکن ہم امریکیوں کی جانب سے صرف وعدہ خلافی اور پابندیوں میں اضافہ ہی مشاہدہ کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں ایران پر ظلم ہیں لہذا فوری پر اس کا خاتمہ ہونا چاہئے یہاں تک کہ دوائی درامد کرنے پر بھی پابندی ہونے کی وجہ سے ایران میں بچے متاثر ہورہے ہیں۔ کرونا کے بحران کے دوران پوری دنیا ایک دوسرے کی مدد کررہی تھی لیکن امریکیوں نے ایران کو ویکسین فراہم کرنے سے انکار کیا۔

گذشتہ سال اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے سالانہ اجلاس کے دوران کرونا کے ویکسین فراہم کرنے کے سلسلے میں عائد پابندیوں کو ختم کرنے میں ناکامی پر مجھ سے معذرت کی۔ اس وقت میں نے کہا کہ ایران نے کرونا ویکسین کی 6 اقسام ایجاد کی ہیں اور دوسرے ممالک کو برامد کررہا ہے۔ اللہ کی مدد اور ایرانی جوانوں کی محنت سے اس مشکل کو حل کرلیا۔ کرونا سے نمٹنے کے لئے ایران کو ویکسین فراہم کرنے سے انکار پر امریکی حکومت اپنے عوام کو کیا جواب دے گی؟گذشتہ جوہری معاہدے کے نتیجے میں ہمیں کیا ملا ہے کہ نئے معاہدے کے بارے میں سوچیں؟ امریکہ نے گذشتہ معاہدے کے بارے میں کس حد تک ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ آئندہ معاہدے کے بارے میں اپنی وفاداری کو ثابت کرے؟

امریکہ کو چاہئے کہ اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ پابندیوں اور دھمکیوں سے کام لینا چھوڑ دے۔ جس طرح اب تک پابندیوں کی وجہ سے مشکلات میں اضافے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں ملا ہے آئندہ بھی اس طرح کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایران نے پابندیوں کی وجہ سے ترقی کی فرصت پیدا کی ہے۔ اس ترقی کو آپ ایران میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ پابندیوں کے باوجود تعلیم اور ٹیکنالوجی میں قابل قدر ترقی کی ہے۔ پابندیاں ایران کو روکنے یا عقب نشینی پر مجبور نہیں کرسکی ہیں۔

ہم نے ہمیشہ تاکید کی ہے کہ بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایران کی بات سنی جائے اور ظالمانہ پابندیوں کا ختم کیا جائے۔ اس طرح امریکہ جوہری معاہدے کے وعدوں پر عمل کرسکے گا۔

نامہ نگار: ان دنوں مہسا امینی کی پہلی برسی کے ایام ہیں جس کو اخلاقی امنیت کی پولیس نے لباس پہننے کے مسئلے پر گرفتار کیا تھا۔ آپ کی نظر میں مظاہرین اور بعض صحافیوں کی گرفتاری کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے دعووں اور اعتراضات پر ایران کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے ایران کی طرف سے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے دنیا کو کیا پیغام جاتا ہے؟

صدر رئیسی: یہ ایک حادثہ تھا جو واقع ہوا۔ اس طرح کے واقعات امریکی شہروں میں خواتین، سیاہ فام اور غیر سفید فام لوگوں کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ ہر روز امریکہ اور یورپ میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اس واقعے کے فورا بعد ایران نے تحقیقات کیں۔ میں نے خود مہسا امینی کے خاندان والوں سے رابطہ کیا اور تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ عدالتی تحقیقات بھی ہوئیں۔ میڈیکل رپورٹس کو بھی منطر عام پر پیش کیا گیا جس سے عوام اور مہسا امینی کے خاندان کو مطلع کیا گیا۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے اس موقع پر موج سواری کی اور اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔ اس واقعے کو ایران کے خلاف ایک منصوبے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ایران کے خلاف ہائبرڈ جنگ شروع کی گئی۔

امریکہ اور مغربی ممالک کو مہسا امینی اور انسانی حقوق سے کوئی ہمدردی نہیں تھی بلکہ انہوں نے اس واقعے کو ایران کے ساتھ اپنی دشمنی نکالنے کے لئے استعمال کرنے کی ٹھانی۔ ایران نے مذاکرات سے دستبرداری اختیار نہیں کی لیکن امریکہ اور یورپی ممالک نے احتجاج اور فسادات پر امیدیں وابستہ کرلیں اور سوچا کہ ایران بھی دوسرے ممالک کی طرح ہے جہاں احتجاج اور بلوا کھڑا کرکے نظام کو تہہ و بالا کردیا گیا۔ دنیا میں کئی ممالک کو اس کے نمونے کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ یہ امریکیوں کی عادت ہے کہ انسانی حقوق کے نام پر ملکوں کا نظام تباہ کردیتا ہے۔

کیا حقیقی معنوں میں وہ انسانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں؟ آپ صحافی کے طور پر امریکی سڑکوں پر دیکھیں۔ امریکی عوام میری آواز کو سننے والے نگاہ کریں۔ امریکہ اور برطانیہ میں پیش آنے والے حادثات اور آج کل فرانس میں ہونے والے مظاہروں میں شرکاء کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ سڑکوں پر ہونے والے واقعات سے کیسے نمٹا جاتا ہے؟ اور دیکھیں کہ ایران ان مواقع پر کیا کرتا ہے؟ البتہ دہشت گردی اور تخریب کاری کی کوشش کرنے والوں کا معاملہ عام مظاہرین سے مختلف ہے۔

خوش قسمتی سے ایرانی عوام نے فسادات کو مکمل ناکام بنادیا یعنی ساتھ دینے سے انکار کیا۔ ایک طبقے نے احتجاج کیا جس طرح پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ ایران نے ان کو تحمل کیا اور بعد میں بھی رہبر معظم کے حکم کے مطابق غفلت اور جذبات کا شکار ہونے والوں کو عمومی معافی دی گئی۔ امریکہ اور یورپ میں ایسا نہیں ہوتا ہے جبکہ ایران میں انتہائی بزرگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا ہوا۔ جن لوگوں نے دہشت گردی کی، لوگوں کو قتل کیا، سیکورٹی فورسز پر حملے کئے اور تخریب کاری میں ملوث ہوئے ان کا کیس مختلف تھا البتہ ایسے افراد کی تعداد بہت کم تھی جن عدالت کے حوالے کرکے سزا سنائی گئی۔

اسلامی جمہوری ایران مخالفین اور مظاہرین کی بات غور سے سنتا ہے۔ آج ہمارے ہاں میڈیا کو درپیش حالات پر نگاہ کریں۔ اظہار بیان کی آزادی ہے۔ ایران میں آزادی بیان اور آزادی قلم کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی لئے امریکہ اور یورپی ممالک کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایران میں مداخلت کے باوجود ہم نے صورتحال کو اچھی طرح کنٹرول کرلیا۔ امریکہ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والوں کی حمایت کررہا تھا۔ اس کا اس کو کیا حق تھا؟ امریکی عوام کو چاہئے کہ اپنی حکومت سے سوال کریں کہ ایران میں ہونے والے فسادات کی کیوں حمایت کی گئی؟ امریکی عوام کو حکومت سے سوال کرنا چاہئے کہ داعش کی کیوں حمایت کررہی ہے؟ جو لوگوں کا سر بدن سے جدا کرتی ہے اور گھروں کو ویران کرتی ہے۔ امریکی عوام کو اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہئے کہ 20 سال افغانستان میں بیٹھنے کے بعد کیوں 35 ہزار افغانی بچے معذور ہوگئے ہیں؟ 20 سال بیٹھنے کا افغانستان کی سیکورٹی کو کیا فائدہ ملا ہے؟ امریکی عوام اور دنیا کے مفکرین امریکی استکبار سے سوال کریں عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں قبضے کے بعد تباہی اور فسادات کے علاوہ کیا نتیجہ ملا ہے؟امریکہ اور دوسرے ممالک تصور کرتے تھے کہ ایران بھی دوسرے ممالک کی طرح ہے جبکہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ انقلاب اسلامی ایک طاقتور درخت کی طرح ثمرآور ہوگیا ہے جو اس طرح کے ہوا کے جھونکوں سے ہلنے والا نہیں ہے۔

نامہ نگار: اگر میں صحیح سمجھا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ گذشتہ سال مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں سڑکوں پر ہونے والے واقعات کا امریکہ کو مورد سرزنش قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایرانی سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کے ساتھ نمٹنے کا کام کیا؛ گذشتہ سال ہونے والے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے؟

صدر رئیسی: جنہوں نے لوگوں کو ورغلایا اور موج سوای کی، امریکہ اور بعض یورپی ممالک تھے۔ صحیح ہے دنیا میں مظاہرے ہوتے ہیں لیکن جو لوگوں کو ورغلاتے ہیں۔ مظاہرین کو ایک دوسرے کی جان کے درپے کرتے ہیں اور بدامنی پھیلاتے ہیں، یقینا یہ کام ایران کے دشمنوں کا تھا۔ ایران کے اندر ایسے عناصر ہیں جو دشمنی ایجاد کرنا چاہتے ہیں البتہ ان کی تعداد بہت کم ہے اور ایرانی عوام کے سمندر کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک کے دعووں کے برعکس ہماری سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کے ساتھ پرتشدد رویہ اختیار نہیں کیا البتہ جو بینکوں کو نذر آتش کرنا چاہتے تھے یا لوگوں پر اسلحہ اٹھارہے تھے یا خونریزی برپا کرنا چاہتے تھے، ان کو سیکورٹی فورسز دہشت گردی اور حکومتی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتی تھیں۔ اسلامی حکومت نے اس موقع پر مظاہرین اور بلوائیوں کے درمیان فرق رکھا۔ ہم نے اجازت دی کہ مظاہرین اپنی شکایت سامنے لائیں، بات کریں اور نعرے لگائیں لیکن بدامنی پھیلانے والوں کو حکومت نے اجازت نہیں دی۔ مظاہرین اور بلوائیوں کے درمیان فرق کی وجہ سے مظاہرین کو گرفتاری کی صورت میں بعد میں رہا کیا گیا۔
مظاہرین آج بھی اپنی شکایت بیان کرنے میں آزاد ہیں۔ جس کسی بھی کوئی اعتراض ہو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر کوئی معاشرے کا امن خطرے میں ڈالنا چاہے تو دنیا میں کسی بھی جگہ اس کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

ایرانی سیکورٹی فورسز نے عوام کو نقصان سے بچانے کی بہت کوشش کی۔ اس وجہ سے دہشت گردوں نے غلط استفادہ کیا اور پولیس اور سیکورٹی فورسز کے متعدد اہلکار شہید بھی ہوگئے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری فورسز نے مظاہرین اور بلوائیوں کے درمیان فرق رکھا تھا اسی وجہ سے ان کو گولی سے شکار کیا گیا۔

نامہ نگار: عورتوں کے حجاب کے بارے میں ایران کی کیا پالیسی ہے؟

صدر رئیسی: ایران ایک اسلامی ملک ہے جہاں کے مسلمان انقلاب اسلامی سے صدیوں سال پہلے ہی باپردہ اور پاکیزہ زندگی گزار رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایرانی قوم کی عفت اور حجاب کی پرانی تاریخ ہے۔ عورتوں کا حجاب اور لباس ایرانی معاشرے کی پہچان ہے۔ ایرانی مسلمان عورتیں دینی اور شرعی تعلیمات کے مطابق حجاب کی پابند ہیں جس کو قانونی حیثیت بھی حاصل ہے۔ ہماری نظر میں مغرب کی جانب سے عورتوں کے حجاب کے حوالے سے ہونے والے شور شرابے کی وجہ ایرانی عورتوں کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے بلکہ اس طرح  کے جنسی مسائل کو زیربحث لاکر امریکہ ایران پر دباو بڑھانا چاہتا ہے۔ اپنے مفادات کے لئے ایران کو دو گروہوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے لیکن یہ منصوبہ خاک میں مل جائے گا۔ قابل فکر نکتہ یہ ہے کہ فرانس میں حجاب کے حوالے سے عائد پابندیاں اور لڑکیوں کو حجاب کے ساتھ اسکولوں میں آنے  کی اجازت نہ دینے کی کونسی معقول وجہ ہے؟

نامہ نگار: گذشتہ سال کے فسادات کی سالگرہ کے موقع پر دوبارہ مظاہرے ہوجائیں تو ایرانی سیکورٹی فورسز کا ردعمل کیا ہوگا؟

صدر رئیسی: کیا آپ کو مظاہروں کے بارے میں کوئی اطلاع ہے؟

نامہ نگار: نہیں معلوم؛ لیکن اس حوالے سے ایرانی حکومت کی جانب سے قبل از وقت اقدامات کی خبریں ہیں۔

صدر رئیسی: یقین کریں ایران ہمیشہ اعتراضات کو سننے کے لئے تیار ہے اور آئندہ بھی رہے گا لیکن اگر کوئی مہسا یا کسی اور موضوع کو لے کر غلط استفادہ کرے اور بدامنی پھیلانے میں دشمنوں کا آلہ کار بنے تو ہماری پالیسی واضح ہے اور وہ لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بدامنی پھیلانے اور عوام کی جان خطرے میں ڈالنے کا سنگین تاوان ادا کرنا پڑے گا۔

نامہ نگار: یوکرائن جنگ اور اس میں ایرانی ڈرون کے حوالے سے خبروں کے بارے میں اور اگر ممکن ہے تو بتائیے کہ اس وقت ایران اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات کیسے ہیں؟

صدر رئیسی: ہم دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ اقتصادی، تجارتی اور دفاعی تعلقات رکھتے ہیں۔ روس بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔ امریکہ کی جانب سے یوکرائن کو کم افزودہ یورنیم سمیت اسلحوں کے ارسال کے برعکس ایران کی جانب سے روس کو اسلحے فراہم کرنے کی اب تک تائید نہ ہوسکی ہے اور جو کچھ ہے وہ گذشتہ زمانے کا ہے۔ ہم جنگ کے خلاف ہیں اور ہمیشہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لئے ثالثی کے لئے تیار ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ کچھ ممالک اس جنگ کو ختم کرنے  کے خلاف ہیں جو یوکرائن کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔

صدر پوٹن کے دورہ ایران کے دوران ان سے جنگ کے بارے میں سوال کیا گیا تو کہا کہ امریکہ جنگ کو ختم کرنے نہیں دے دیتا ہے۔ انہوں نے نیٹو کو اس خطے تک توسیع دے کر جنگ کا آغاز کردیا ہے اور اب بھی اس جنگ کو جاری رکھنے  کے خواہشمند ہیں تاکہ اسلحہ فروخت کریں۔ جو فریق اس جنگ سے فائدہ اٹھارہا ہے، امریکہ ہے۔ 
ایران پر عائد الزامات کے بارے میں ہم نے عمان میں ہونے والے اجلاس کے دوران بھی ثبوت مانگے لیکن ابھی تک ایران کی جانب سے اسلحہ فراہم کرنے کا واضح ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

نامہ نگار: یوکرائن کا دعوی ہے کہ اب تک کئی ایرانی ڈرون گرائے گئے ہیں جن کے پرزے ایران کے ملوث ہونے کی دلیل ہیں، آپ کیا جواب دیتے ہیں؟

صدر رئیسی: میں نے خود اس حوالے سے تحقیق کی حتی کہ مشرقی یورپ کے حکام سے گفتگو کی کہ ایک یوکرائن کے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت ہے تو پیش کرے تاہم اب تک روس کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد ایران کی جانب سے اسلحہ بھیجنے کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

نامہ نگار: آپ کی نظر میں جنگ شروع ہونے کے بعد روسی صدر کی حیثیت میں کمی آئی ہے نہیں؟

صدر رئیسی: اس جنگ کے بارے میں صحیح تجزیہ کرنا چاہئے جس کے لئے امریکہ اور یورپ کی جانب سے یوکرائن کی حمایت اور ان کے کردار کو جاننا لازمی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اس جنگ میں اسلحہ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہداف تک رسائی چاہتا ہے۔ مغربی اور یورپی ممالک اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے نقصان اٹھارہے ہیں اس کا ایک نمونہ سردیوں میں عوام کے لئے درپیش مشکلات ہیں۔ امریکہ اس جنگ کو طول دے کر اسلحہ بیچنا چاہتا ہے جس سے یورپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ جنگ قوموں کے لئے باعث نقصان ہے لہذا جلد ختم ہونا چاہئے۔

نامہ نگار: ایران سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کررہا ہے؛ اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم ہوجائیں تو ایران اور سعودی عرب کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟

صدر رئیسی: ایران اور سعودی عرب دو اہم اسلامی ممالک کی حیثیت سے خطے میں اچھے تعلقات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مختلف شعبوں میں مزید وسیع ہوسکتے ہیں۔ ہم خطے کے ممالک کے اسرائیل کے ہر قسم کے رابطے کے خلاف ہیں اور سمجھتے ہیں صہیونی حکومت خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بہانے اپنے لئے فضا سازگار کررہی ہے۔ اس حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا کسی بھی لحاظ سے خطے کے ممالک کے لئے امن ایجاد نہیں کرے گا کیونکہ پورے خطے کے عوام بچوں کے قتل عام میں ملوث صیہونی حکومت کے لئے اپنے دلوں میں نفرت اور کینہ رکھتے ہیں۔

نامہ نگار: ایران حالیہ دنوں میں برکس کا رکن بن گیا ہے جس میں روس، چین، بھارت اور برازیل جیسے ممالک شامل ہیں، اس سے بین الاقوامی طور پر ایران پر کیا اثر پڑے گا اور آپ کے ملک کے لئے کیا فائدہ ہوگا؟

صدر رئیسی: امریکہ اور بعض یورپی ممالک ایران کو گوشہ نشین کرنے کی سازش کررہے ہیں لیکن برکس اور شنگھائی تعاون کونسل میں ایران کی شمولیت سے ان کی سازش ناکام ہوگئی ہے۔ دوسری جانب برکس میں ایران کی شمولیت کی وجہ اس کی خطے میں حیثیت اور مقام ہے جس کی وجہ سے اس تنظیم کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا۔ تنظیم میں شمولیت کے بعد دنیا میں نمودار ہونے والی نئی طاقتوں کے ساتھ ہمارے اقتصادی روابط میں اضافہ ہوگا۔

ایک خبرنگار کی حیثیت سے آپ دیکھیں گے کہ آج دنیا ایک طاقت کے بجائے کئی طاقتوں کی جانب توجہ کررہی ہے۔ امریکہ کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم کی وجہ سے دنیا کی اقوام نئی طاقتوں کی جانب رخ کرنے پر مجبور ہورہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں نیا نظام تشکیل پارہا ہے۔ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک اقتصادی اور اجتماعی لحاظ سے اس نئے نظام کا ہر اول دستہ ہیں۔ ایران کو ان تنظیموں میں شمولیت کے بعد فائدہ ہوگا۔

نامہ نگار: ہمیں ٹائم دینے اور سوالات کا جواب دینے کا شکریہ

صدر رئیسی: میں بھی آپ اور آپ کی ٹیم کا شکرگزار ہوں۔
 

لیبلز