نیشابور کے قصبے فدیشہ میں ہر سال یوم عاشور کو عزاداران حسینی کا اجتماع ہوتا ہے جس میں 80 ہزار عزادار شرکت کرتے ہیں۔ یہ ماتمی دستہ 300 سال پرانا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی- صوبائی ڈیسک، متین رضوی: ایرانی صوبہ خراسان رضوی میں عشق آباد شہر سے 32 کلومیٹر دور قصبہ فدیشہ واقع ہے۔ صوبے میں جب فدیشہ کا نام لیا جاتا ہے تو یوم عاشور کو نکلنے والے قدیمی اور تاریخی دستے کا منظر ذہن میں آتا ہے۔

فدیشہ اور اس کے اطراف میں واقع شہروں میں یہ شبیہ اور ماتمی دستہ بہت معروف ہے جو محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران نکلتا ہے۔ یہ دستہ ایک مقامی مسجد سے نکلتا ہے جس کو قتلگاہ بھی کہتے ہیں۔

نویں اور دسویں محرم کو یہ مراسم عروج پر ہوتے ہیں جس کے دوران عزاداران حسینی سینہ زنی اور نوحہ خوانی کرتے ہیں اور دستے میں نذر اور نیاز بھی تقسیم کرتے ہیں۔ مقامی لوگ نیشابور کی مشہور حلیم کی ڈش پکا کر عزاداروں کا تواضع کرتے ہیں۔

ظہر کے نزدیک قصبہ فدیشہ کے لوگ اپنے گھروں کے دروازے کھول دیتے ہیں اور عزاداروں کو اس دسترخوان پر دعوت دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر پورے قصبے میں حلیم کی 80 دیگیں پکتی ہیں جس میں ہر دیگ ایک ہزار افراد کے لئے کافی ہوتی ہے اس طرح 80 ہزار عزاداروں کے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

یہ ایران کے مشرق میں ہونے والے عزاداری کو دوسرا بڑا اجتماع ہے۔ ہر سال عاشورا کے دن تعزیہ نکال کر رسومات کا آغاز کرتے ہیں اور 80 ہزار افراد اس موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ 


یوم عاشور کو غروب آفتاب تک جاری رہنے والے ان مراسم میں نیشابور کے قصبوں اور محلوں سے تعلق رکھنے والے ماتمی دستے شرکت کرتے ہیں۔ انجمن عزاداران فدیشہ سب سے بڑا علم نکال کر دوسرے دستوں کا استقبال کرتی ہے۔ مہمان دستے روایتی طریقے کے مطابق آگے آگے رہ کر صلوات اور مخصوص نعروں کے بعد تین مرتبہ سلام کرتے ہیں جس کا جواب دیا جاتا ہے اس کے بعد تمام پرچموں کو ایک دوسرے کے نزدیک لایا جاتا ہے اس طرح تمام مہمان دستوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔

فدیشہ قصبے میں 300 سالہ رسم کے مطابق واقعہ کربلا کی شبیہ سازی کی جاتی ہے جس میں 60 افراد صداکاری اور 5 گروہ روضہ خوانی میں حصہ لیتے ہیں۔ 

اس موقع پر صبح عاشور کو امام حسین علیہ السلام کی کربلا آمد کا علامتی منظر نامہ بھی پیش کیا جاتا ہے اور یوم عاشور کے غروب کے وقت خیام حسینی کو آگ لگانے کے منظر کی بھی نمائش کی جاتی ہے۔

ہر سال عراق، پاکستان، چین، کویت، جرمنی اور افغانستان وغیرہ سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کے علاوہ ایران کے شہروں تہران، کرمان، تبریز، مشہد اور بندرعباس وغیر سے بھی لوگ اس روایتی عزاداری کے رسومات میں شرکت کرنے آتے ہیں۔

تعزیہ اور شبیہ کا یہ قدیمی رسم اس قصبے کی پہچان بن چکا ہے اسی وجہ سے قصبے کے لوگ ان مراسم کو خاص اہمیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

تاریخی منابع کے مطابق ان مراسم کی بنیاد قاجار دور میں پڑی جس کے بارے میں ثبوت میں موجود ہے البتہ قصبے والوں کا ماننا ہے کہ ان رسومات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور قاجار سے پہلے بھی ان رسومات کا ذکر ملتا ہے۔

حاج ملا حسن موسسی، حاج ملا علی موسسی، حاج محمد موسسی، حاج محمد رضا موسسی اور حاج ھاسم اخباری وغیرہ ان رسومات کے دوران تعزیوں کو اٹھاتے ہیں اور ان رسومات کی تاریخ سے واقف ہیں۔

حاج ہاشم اخباری کے زمانے میں ان رسومات میں کچھ تبدیلیاں لائی گئی ہیں اور مادی تعاون کا عنصر زیادہ شامل کیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر دعوی کیا جاسکتا ہے کہ قصبہ فدیشہ میں ہونے والا یہ مخصوص اجتماع ایران کے سب سے بڑے اجتماعات میں سے ایک ہے جس کی تاریخ 300 سال پرانی ہے۔ مشہد مقدس کے بعد ملک کے شمال مشرق میں عزاداری کے اس اجتماع میں لوگ بہت عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔