مہر خبررساں ایجنسی - سیاسی ڈیسک؛ مسلمانوں کے عقائد کی توہین کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حکومتی اجازت نامے کے تحت میڈیا کے قرآن مجید کو جلاکر دنیا پر واضح کیا گیا کہ مغرب کے نزدیک آزادی عقیدہ اور آزادی توہین عقیدہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بدھ کے روز عراقی مہاجر سیڈش شہری سلوان مومیکا نے اسٹاک ہوم کے مرکزی حصے میں واقع مسجد کے سامنے قرآن مجید کو آگ لگا کر توہین آمیز حرکت کا مرتکئب ہوا۔ ذرائع کے مطابق حادثے کے دوران 200 افراد موجود تھے۔
کئی مغربی ممالک میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کے بعد سویڈن میں دوبارہ تکرار ہوا ہے۔ البتہ اس مرتبہ باقاعدہ حکومت کی جانب سے اجازت دی گئی تھی۔ آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اسلامی ممالک میں واقعے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ دارالحکومتوں میں سویڈن کے سفیروں کو دفتر خارجہ بلاکر احتجاج کیا گیا ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ نے واقعے کے بعد اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
علاوہ ازین ایران نے واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سویڈن کے لئے سفیر کی تعییناتی سے انکار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سویڈن کے لئے ایرانی سفیر حجت اللہ فغانی نے اس حوالے سے وزیرخارجہ عبداللہیان سے ملاقات کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آزادی اور حریت کو مغربی میڈیا میں مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک زمانے مغربی ممالک امن کے نام پر مشرقی ممالک پر یلغار کرتے تھے آج آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر یہ سلسلہ جاری ہے۔ اپنے ناپاک اور اسلام مخالف عزائم کی تکمیل کے لئے ان وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ یورپ میں اسلام کی پیشرفت اور مسلمانوں کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے یہ ممالک حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ اسی وجہ سے مخفیانہ اور علی الاعلان اسلام مخالف واقعات کی حمایت کی جاتی ہے تاکہ اسلام کے روشن چہرے کا بگاڑ کر پیش کیا جائے۔
قرآن سوزی، توہین آمیز خاکے اور فلموں کا اجراء وہ اسلام مخالف واقعات ہیں جو آزادی کے بہانے انجام دیے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے داعش جیسی دہشت گرد اور شدت پسند جماعت کو بھی اسلام کو بدنام کرنے لئے وجود میں لایا گیا تاکہ نئی نسل کو اسلام سے دور رکھا جائے۔
مغرب کی دوغلی پالیسی کا نمایاں ثبوت یہ ہے کہ کوئی صہیونیت یا لولوکاسٹ کے بارے میں اعتراض آمیز تحریر، کارٹون یا فلم بنانے کی جرائت بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی توہین کے موقع پر آزادی کا ڈنڈوران پیٹا جاتا ہے۔ اس حساس موقع پر اسلامی ممالک کا اتحاد اور اجتماعی طور پر سویڈن کا بائیکاٹ ہی مستقبل میں ایسے واقعات کو روک سکتا ہے کیونکہ اقتصادی مفادات کے معاملے میں مغرب کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا ہے۔
جمعیت وفاداران اسلامی کے سیکریٹری جنرل حبیب اللہ بوربور نے مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو چاہئے کہ قرآن مجید کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت ردعمل دکھائیں اور ان پر پابندی عاید کریں۔ ان واقعات کی روک تھام کا یہی موثر ترین طریقہ ہے۔ اگر آج اس سلسلے کو نہیں روکا گیا تو مستقبل میں دوسرے مذاہب بھی توہین کا شکار ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کو چاہئے کہ قرآن کریم کی بے حرمتی میں ملوث ممالک سے تجارت سے گریز کریں۔ اگر یہ کام انجام دیا گیا تو آئندہ توہین آمیز واقعات پیش نہیں آئیں گے۔ ایرانی وزیرخارجہ نے اس حوالے او آئی سی سیکریٹری جنرل سے گفتگو کرتے ہوئے مسلمان ممالک کو مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
انقلابی جماعتوں کے اتحاد کی کونسل کے رکن نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک کو بھی عراق اور متحدہ عرب امارات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے سفیروں کو سویڈن سے واپس بلانا چاہئے۔
انہوں نے قرآن سوزی کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ منحرف اور شیطان پرستوں کا غلبہ ہوا ہے۔ یورپی معاشروں اور ان کے اعلی حکام میں بھی اس طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ اسلام ان افراد کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ ہے اس لئے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے مراجع تقلید کی جانب سے اس واقعے پر ردعمل کے بارے میں کہا کہ آیت اللہ سیستانی سمیت مراجع تقلید نے اچھا ردعمل دکھایا ہے اور کہا ہے کہ اگر مغربی ممالک آزادی کے مدعی ہیں تو یہ آزادی دنیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان ممالک کو اس حوالے سے مناسب اور مشترک موقف اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات پیش نہ آئیں۔