مہر نیوز ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ بعضی حکومتیں عالمی طاقتوں کی حمایت کے تحت چند روز عوامی احتجاج کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہیں لیکن یمن نے تین ہزار دنوں میں دشمن کی جانب سے وسیع پیمانے پر جنگ مسلط کرنے کے باوجود عالمی اور علاقائی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا۔
یمن پر جنگ مسلط کرنے کے آغاز میں ہی اس کے دشمن ممالک مالی اور جنگی وسائل سے بھرپور تھے لیکن اس کے باوجود اللہ کا ارادہ کچھ اور تھا۔ یمن نے ان تین ہزار دنوں میں دشمن پر فتح حاصل کرلی۔ یمن کی جنگ کا فقط مالی اور مادی لحاظ سے تجزیہ کرنا درست نہیں۔ جنگ کے شروع میں یمن کو اقتصادی بحران اور انتشار کا سامنا تھا۔ ان مشکلات میں جارح افواج نے بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کی حمایت کے تحت زمینی، فضائی اور سمندری حملے کا آغاز کردیا۔۔ وسیع حملوں کے باوجود یمن کے عوام نے دشمن کے دانت کھٹے کردیے۔ ان کی استقامت کو مادی نظروں سے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔
تین ہزار دن گزرنے کے موقع پر یمن کی انسانی حقوق کی وزارت نے جنگ کے بارے میں اعداد وشمار جاری کئے ہیں جس میں حملہ آور ممالک کی جنایتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یمن کے مختلف صوبوں میں اب بھی شہریوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم جاری ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق اتحادی ممالک نے اس عرصے میں 274000 مرتبہ فضائی حملے کئے اور 600000 بم یمنی شہروں پر برسائے۔
1300000 مرتبہ یمن پر بمباری کی گئی۔ 767000 میزائل فائر کئے۔ 14000 ڈرون حملے ہوئے۔ ان حملوں میں 49000 سے زائد یمنی شہری جاں بحق یا زخمی ہوگئے جن میں سے اکثر خواتین اور بچے تھے۔
اتحادیوں کے حملوں میں 18000 سے زائد شہید ہوگئے جن میں سے 4096 خواتین اور بچے تھے۔ 30000 سے زائد زخمی ہوگئے جن میں 2997 خواتین اور 4840 بچے تھے۔
انسانی حقوق کی وزارت کے مطابق 80 فیصد یمنی اس وقت امداد کے محتاج ہیں۔ لاکھوں افراد کو بھوک اور قحط کا سامنا ہے۔
یمنی عوام کا تین ہزار روزہ جنگ میں استقامت اور خطرات کو فرصت میں تبدیل کرنا اگرچہ ایک بڑا کارنامہ تھا لیکن اس جنگ کے نتیجے میں یمن ایک وابستہ ملک سے خودمختار ملک میں بدل گیا ہے۔ یمن ایک علاقائی طاقت بن چکا ہے جس سے صہیونی حکومت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو خطرہ لاحق ہونا شروع ہوا ہے۔
مندرجہ بالا جملے نعرے نہیں بلکہ حقائق ہیں جس کا دوست اور دشمن سب اعتراف کرتے ہیں۔ باریک بینی سے یمن کے حالات کا تجزیہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ممالک یمن کو دو سے تین ہفتوں کے اندر شکست دے کر فتح کرنا چاہتے تھے لیکن نتیجہ ان کی خواہش کے برعکس نکلا۔
اتحادیوں کے فوجی ترجمان احمد عسیری کے الفاظ آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں جنہوں نے انتدائی دنوں میں کہا تھا کہ سعودی عرب نے یمن کی 80 فیصد دفاعی طاقت کو مختصر عرصے میں تباہ کردیا ہے۔ سعودی حکام اطمینان کے ساتھ چند دنوں میں جنگ تمام ہونے کی بات کررہے تھے۔
میدان جنگ میں وہ نہیں ہوا جو ان کی خواہش تھی بلکہ زمینی حقائق کے مطابق اتحادیوں کو واضح شکست ہوگئی۔ اتحادی ممالک کا اصل ہدف یمنی فوج اور انصاراللہ کو ختم کرکے غیر مسلح کرنا اور اپنے مہرے منصور ہادی کو دوبارہ برسراقتدار لانا تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی ہدف حاصل نہ کرسکے۔
تین ہزار دنوں کے بعد اس 17 ملکی فوجی اتحاد کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا ہے جو سعودی عرب کی زیر قیادت تشکیل پایا تھا۔ آخری ایام میں سعودی عرب میدان میں تنہا رہ گیا۔ سب سے بااعتماد دوست متحدہ عرب امارات نے بھی عقب نشینی اختیار کرنے میں عافیت سمجھی۔
یہی حال ان گروہوں کا بھی ہے جو یمنی عوام پر مسلط ہونا چاہتے تھے۔ آج منصور ہادی اور ان کے معاون علی محسن الاحمر منظر عام سے غائب ہیں۔ صدارتی شوری بھی اختلافات کا شکار ہوچکی ہے۔ عربی اور مغربی ممالک کے ہاتھوں کھلونا بننے کی وجہ سے یمن میں ان کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے۔
دوسری طرف یمن سیاسی، سفارتی اور اقتصادی لحاظ سے طاقت ور ملک بن چکا ہے۔ آج صنعاء کے پاس اس کے حریف ممالک سے زیادہ جدید ہتھیار ہیں۔ یمن کے اسلحہ خانوں میں پیشرفتہ اور درست ٹھکانے کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کی پوری کھیپ موجود ہے جو زمین اور سمندر میں کسی بھی ہدف کو آسانی کے ساتھ نشانہ بناسکتے ہیں۔
ان دنوں میںدشمنوں کی سازش کے برعکس یمن نے جدید ہتھیار بنانے میں کافی کامیابی حاصل کی جس کا دشمن سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انسانی وسائل کے لحاظ سے بھی یمن بے نیاز ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں تربیت یافتہ سپاہی یمنی فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تین ہزار روزہ جنگ میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ خدا پر توکل اور قوی ارادہ ہی تقدیر بدل دیتا ہے۔ دشمن نے سوچا تھا کہ دولت اور جدید ہتھیاروں کے سہارے جنگ کا نقشہ بدل دیں گے لیکن یہ تصور غلط ثابت ہوا۔ آج اتحادی ممالک اچھی طرح جان چکے ہیں کہ یمنی جنگ کا جاری رہنا ان کے لئے کسی بھی لحاظ سے بہتر نہیں ہے۔ ریاض کو معلوم ہوچکا ہے کہ یمن میں جنگ جاری رہنے کی صورت میں اس کا وژن 2030 مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔
سعودی عرب کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکی دفاعی سسٹم پر اعتماد کرنے سے تیل اور اقتصادی تنصیبات کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔ امریکہ ان تنصیبات کی حفاظت نہیں کرسکتا ہے۔ سعودی عرب نے کشیدگی کے بجائے صلح اور مذاکرات کو ترجیح دینا شروع کیا ہے۔ بیجنگ معاہدے کے ذریعے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا فیصلہ اس کی بڑی مثال ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے اس حقیقت کو جان لیا ہے کہ وژن 2030 کو عملی بنانے کے لئے کشیدگی کو کم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ اقتصادی ترقی اور کشیدگی دو متضاد چیزیں ہیں۔
سعودی عرب کی اس نئی پالیسی کے ضمن میں بھی یمن جنگ کے بارے میں تجزیہ کرسکتے ہیں لہذا یہ بات اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یمن جنگ ختم ہوچکی ہے۔