پاکستان کی سیاسی جماعتوں ایک پیچیدہ صورتحال درپیش ہے۔ اتحادی حکومت کے مطابق موجودہ سیاسی فضا میں عام انتخابات کے لئے حالات مساعد نہیں ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے عمران خان کی آزادی کا حکم جاری ہونے کے باوجود اس پر عملدرامد میں کئی گھنٹے لگے۔ یہ بات واضح ہے کہ سیکورٹی اداروں کی طرف سے عمران خان کو جیل میں بند رکھنے کی ضد کشیدہ صورتحال کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر فوری رہائی کا حکم جاری کردیا۔ عمران خان کی رہائی میں تاخیر سے ملک میں عام انتخابات کے عمل میں تاخیر ہوجاتی لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں کے مسلسل مظاہرے پاکستان کو مزید نقصان سے دوچار کرتے۔ اب تک پنجاب اور کے پی میں دس نفر کی ہلاکت اور سینکڑوں زخمی ہونے کی خبریں ہیں جبکہ عمران خان کے پندرہ سو حامی جیلوں میں بند کئے گئے ہیں۔

گذشتہ ہفتے سیکورٹی اہلکاروں کی کثیر تعداد کی موجودگی میں عمران خان کی گرفتاری ہالی ووڈ فلم کا منظر پیش کررہی تھی۔ اس اقدام کے بعد عمران خان کے حامیوں نے سیکورٹی فورسز کے مراکز پر حملے کرکے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔ گرفتاری کے بعد عمران خان کی سٹریٹ پاور کا خوب مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ 

سابق کرکٹر عمران خان کو احتساب ادارے نیب نے مالی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کا وہ اپنے دور حکومت میں مرتکب ہوا تھا۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ اپنی حکومت میں ملنے والے تحفوں کو غیرقانونی طور پر قبضے میں لیا ہے۔ ان کے علاوہ تحریک انصاف کے دوسرے رہنما بھی عوام کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار ہوئے ہیں جن میں عمران خان کے نائب شاہ محمود قابل ذکر ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے عمران خان کے حامیوں کے ساتھ تند لہجہ اختیار کرنے کے بعد حالات مزید کشیدگی کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستر سالہ عمران خان کی گرفتاری نے عالمی برادری کی توجہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی طرف مبذول کرادی ہے۔ اس واقعے نے کثیر آبادی والے ملک پاکستان کو غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کردیا ہے جس طرح عمران خان کی معزولی غیر یقینی حالات میں ہوئی تھی۔
عمران خان کی کرپشن کے الزامات میں گرفتاری کی اصل وجہ مالی بدعنوانی سے زیادہ سیاسی ہے۔ انہوں نے خارجہ پالیسی اور دیگر امور میں اپنے پیشرو سیاستدانوں کے مقابلے میں آزاد پالیسی اختیار کی تھی۔ اسی کے تحت اسلام نے ماسکو، بیجنگ، تہران، دوحہ، انقرہ اور کوالالمپور کی طرف جھکاو ظاہر کی تھی۔ عمران خان نے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان میں فوجی اڈے فراہم کرنے کی درخواست پر اتفاق نہیں کیا تھا اسی طرح یوکرائن کے تنازع میں مغرب کی حمایت سے انکار کیا تھا۔ اس طرح مغرب اور امریکہ کی درخواست کو فوری طور پر قبول کرنے کے بجائے روس کے ساتھ بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔

فوج کہاں کھڑی ہے؟

پاکستان میں اکثر مواقع پر فوجی جنرلوں نے اپنی طاقت دکھائی ہے۔ آزادی کے بعد تین مرتبہ فوجی جنرلوں نے حکومت پر قبضہ کرکے سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو بھی شروع میں فوجی حکام کی حمایت حاصل تھی لیکن عمران خان کی مقبولیت اور خودمختاری پالیسیوں نتیجے میں فوجی جنرل نے ان سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس وقت ملک میں ایک سیاسی بحران پیش آسکتا ہے جن میں فوجی جنرل اور عمران خان کے حامی آمنے سامنے آسکتے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں پاکستانی فوجی حکام اور مغربی حکمرانوں کے درمیان کوئی رابطہ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن اور وزارت خارجہ نے سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ صورتحال زیادہ تشویشناک نہیں ہے۔

عمران خان کی گرفتاری اور اقتصادی بحران

پاکستان طویل مدت سے اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ 23 کروڑ آبادی والے ملک میں اقتصادی بحران کی وجہ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے عوام کی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لئے مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔ اقتصادی بحران انتخابات کی راہ میں ایک رکاوٹ بن کر حائل ہوگئی ہے۔ 

پاکستان کی معیشت سخت حالات سے گزر رہی ہے بلکہ حقیقی معنوں میں کہا جاسکتا ہے  کہ ڈیفالٹ کے خطرات درپیش ہیں۔ گذشتہ سال آنے والے سیلاب کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے اور تیل خریدنے کے لئے زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوکر گذشتہ ایک دہائی کے سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی ہنگامی امداد کے ذریعے گرتی معیشت کو سہارا فراہم کیا جائے گا لیکن اس پر بھی ابھی تک اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں کشیدگی اور غیر یقینی صورتحال میں ہی اضافہ ہونے والے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف عمران خان اور فوجی رہنماوں کے درمیان مذاکرات کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ موجودہ حالات میں مذاکرات کے ذریعے سیاسی فضا کو نارمل کرکے انتخابات کے لئے راہ ہموار کرنے کے امکانات دور تک نظر نہیں آتے۔

کشیدگی اور سیاسی بحران کی وجہ سے سیاسی جماعتیں ملک میں عام انتخابات منعقد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جس طرح پنجاب اور کے پی میں انتخابات منعقد نہ کرنے کے لئے بہانے پیش کئے گئے تھے ان وجوہات کو سامنے لاکر ملک میں عام انتخابات کو بھی ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ البتہ انتخابات کا التوا ملک کو مزید بحران کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

پاکستان کے بحران کے حل کے سلسلے میں ان سوالات کے جواب کا انتظار کرنا ہوگا؛

ان حالات میں کیا عمران خان کی آزادی کے ساتھ کورٹ میں حاضری اور ججوں کے فیصلے سے حالات پرامن ہوسکتے ہیں؟

کیا عمران خان کی رہائی کے بعد سکون کے ساتھ اپنی پارٹی کو انتخابات کی طرف رہنمائی کرسکے گا یا نہیں؟