مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، مبصرین کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ سیاسی روابط قائم ہونے سے یمن کی جنگ کا خاتمہ اور وسیع قومی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ جلد شروع ہوسکتا ہے۔ یمن پر ان مذاکرات کے اثرات اس بات سے وابستہ ہیں کہ اس کھیل میں شامل داخلی اور خارجی کھلاڑی کیا ردعمل دکھاتے ہیں جس سے مستقل جنگ بندی اور ایک سیاسی راہ حل کی جانب پیش قدمی ممکن ہوجائے۔
عالمی سطح پر اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ ایران اور سعودی رب کے درمیان تعلقات بحال ہونے سے خطے میں اتحادیوں کی شکل بدل سکتی ہے اور چین بھی اپنا قدم جمانے کی کوشش کرسکتا ہے۔
مہر نیوز اس حوالے سے انصاراللہ کے سیاسی دفتر کے رکن علی القحوم کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہے۔
مہر نیوز: گذشتہ ایام میں یمن میں قیدیوں کا کثیر پیمانے پر تبادلہ ہوا، یہ عمل انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تھا یا طریقین کے درمیان مذاکرات اور جنگ بندی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے؟
علی القحوم: ہم اس سلسلے میں عمان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں اس کے اچھے اثرات سامنے آئیں گے اور دوسرے فریق کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں یمنی عوام کی فداکاری، یمن کی خودمختاری، محاصرے کا خاتمہ، بیرونی افواج کا انخلاء اور جنگ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔
مہر نیوز: مبصرین کو اس بات میں شک میں ہے کہ سعودی عرب امریکی دائرہ اختیار سے باہر نکل سکتا ہے یا نہیں؟ یمن کے مسئلے میں امریکہ اور صہیونیوں کی سازشیں بھی شامل ہیں پس سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے امریکہ کی کیا پوزیشن ہے۔ کیا امریکہ یمن کی جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے؟
علی القحوم: ہمیں توقع ہے کہ مستقبل میں مذاکرات کسی مشکل کے بغیر آگے بڑھیں گے۔ صلح کا راستہ بہترین اور سب کے حق میں ہے۔ سعودی عرب کو امریکی نوکری سے نکلنا ہوگا اور یمن کے محاصرے اور اس پر عائد پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ امریکہ اور مغربی ممالک سعودی عرب کو یمن کے دلدل میں پھنسانا چاہتے ہیں۔ یمن کے حالات کشیدہ ہونے سے خطے کا امن متاثر ہوجاتا ہے۔ حالات نے ثابت کردیا ہے کہ خطے کو درکار مشکلات کی جڑ امریکی اناپرستی اور استکباری ذہنیت ہے۔ آبنائے باب المندب اور یمن کی ساحلوں پر امریکی فوج کی موجودگی سے پورے خطے کی سیکورٹی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
امریکہ کے مقابلے میں چین نے خطے میں امن کی بحالی کے لئے اپنا کردار پیش کیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے مذاکرات اس کی بہترین مثال ہے۔ چین کو چاہئے کہ خطے میں امریکی بالادستی کے خلاف کردار ادا کرے اور علاقائی ممالک میں موجود بدامنی اور امریکی غنڈہ گردی کا خاتمہ کرے۔ باب المندب اور دیگر مقامات پر امریکی افواج موجود ہونے سے خطے کے مفادات سمیت چین بلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کا منصوبہ بھی خطرے کا شکار ہوگیا ہے لہذا مغرب کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہی خطے اور علاقائی ممالک کے فائدے میں ہے۔