سوڈان میں حالات پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکے ہیں اور اس ملک کے عوام جرنیلوں کے اقتدار کی جنگ کی قیمت چکا رہے ہیں اور اب دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نے دونوں جرنیلوں کے درمیان ثالثی کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک؛ 1967ء کی عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ کے بعد، عرب لیگ کے سربراہان خرطوم میں جمع ہوئے۔ عرب لیگ کا یہ سربراہی اجلاس ستمبر کے پہلے ہفتے میں سات نکاتی بیانیہ پر اختتام پذیر ہوا۔ یہ اجلاس اور اعلامیہ "تیسرے پیراگراف" کے عنوان سے مشہور اور تاریخی ہوا۔ 

خرطوم کے بیانیے کے تیسرے پیراگراف میں اس بات پر زور دیا گیا کہ "عرب ممالک کے سربراہان نے جارحیت کو ختم کرنے اور 5 جون کی جارحیت کے بعد سے مقبوضہ عرب سرزمین سے اسرائیلی جارح افواج کے انخلاء کو یقینی بنانے کیلئے بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر اپنی سیاسی اور سفارتی کوششوں کو باہمی ارتباط کے ساتھ تیز کرنے پر اتفاق کیا اور یہ ان بنیادی اصولوں کے فریم ورک کے اندر کیا جائے گا جن پر عرب ممالک عمل پیرا ہیں، یعنی اسرائیل کے ساتھ امن وامان کے قیام کو ناگزیر قرار دینے سمیت اس غاصب ریاست کو تسلیم نہ کرنا، اس کے ساتھ کوئی مذاکرات نہ کرنا اور اپنے ملک میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت جاری رکھنا تھا۔

اس پیراگراف میں تین اہم معاہدے کئے گئے تھے، جو کہ"تین نہ" کے نام سے مشہور ہوئے۔

ان معاہدوں کے بعد سے سوڈان کو بہت سی تبدیلیوں کا سامنا رہا ہے۔ تقریباً 15 فوجی بغاوتیں ان تبدیلیوں کا حصہ ہیں۔ 2021ء میں، جب سوڈانی فوج نے جنرل عبدالفتاح البرہان کی سرپرستی میں صدر عمر البشیر کو بغاوت کے ذریعے معزول کیا، وہ اسرائیلی حکومت کے ایک سیاسی وفد کے مہمان تھے۔ اس پارٹی اور مشاورت میں، بغاوت کے منصوبہ سازوں نے تل ابیب کے سفیروں کے سیاسی طرزِ عمل پر چلنے کا اتفاق کیا جو سوڈان کی اسرائیل کے ساتھ مفاہمت پر ختم ہوا۔

ایلی کوہن اسرائیلی وفد کے سربراہ نے سوڈٖان سے واپسی پر کہا تھا کہ "ہم سوڈانیوں کے ساتھ ایک نئے تعلقات قائم کر رہے ہیں، جو کہ تین نہ سے تین ہاں میں بدل گئے:
یعنی اسرائیل کے درمیان مذاکرات، اسرائیل کو تسلیم کرنا اور  لوگوں کے درمیان امن کیلئے اقدام کرنا ہاں۔

یہ تعلق جاری رہا اور آخری میزبانی میں 2 فروری 2023ء کو اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن نے خرطوم میں جنرل البرہان اور ڈکٹیٹر حکومت کے وزیر دفاع سے ملاقات اور گفتگو کی۔

جنرل البرہان، جنہوں نے طفل کش غاصب حکومت کیلئے خرطوم کے دروازے کھولے تھے اور یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے ساتھ غداری کی جائے گی۔ جب ملٹری فورسز کے کمانڈر حمیدتی نے اس کے خلاف بغاوت کی اور سوڈان کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا تو تل ابیب حمیدتی کے ساتھ کھڑا ہوا۔

دونوں جرنیلوں حمیدتی اور البرہان نے اسرائیل کیلئے عقیدت کا اظہار کیا، لیکن حمیدتی میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اس وقت اسرائیل کیلئے زیادہ فائدہ مند ہیں۔ سوڈان پر حمیدتی کا تسلط ملکی فوج کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سوڈانی فوج کی سوچ اسلام پسند اور اسرائیل مخالف قوتوں پر مشتمل ہے اور اس کا خاتمہ تل ابیب کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حمیدتی نے کر کے دکھایا کہ اس کے پاس اسرائیل کے اہداف کی سمت بڑھنے کی زیادہ ہمت ہے اور اس کے زیر کنٹرول فورسز متعلقہ علاقوں اور اس سے بڑھ کر اسرائیلی کرائے کے فوجیوں کا کردار سنبھال سکتی ہیں۔ انہوں نے ایک بار یمن جنگ میں بڑے پیمانے پر یہ کردار ادا کیا تھا۔ حمیدتی کی جیت سے سوڈان کی تقسیم کی ایک بار پھر راہ ہموار ہوگی اور یہ وہی کام ہے جو اسرائیل نے جنوبی سوڈان میں کیا تھا اور اب وہ اس عظیم ملک کیلئے سوچ رہا ہے۔

باوثوق خبر رساں ذرائع نے بتایا ہے کہ موساد کا حمیدتی کے ساتھ تعلق تھا اور اس تعلق کا ثالث متحدہ عرب امارات ہے۔ اس تعلق اور حمایت نے جنرل البرہان کو ناراض کر دیا، کیونکہ انہوں نے خود اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا وعدہ کر رکھا تھا۔

سوڈان میں حالات پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکے ہیں اور اس ملک کے عوام جرنیلوں کے اقتدار کی جنگ کی قیمت چکا رہے ہیں اور اب دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نے دونوں جرنیلوں کے درمیان ثالثی کردار ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔

یقیناً جس طرح اسرائیل نے جنرل البرہان کو دھوکہ دیا اسی طرح وہ ضرورت پڑنے پر حمیدتی سے بھی منہ موڑ لے گا۔ مسئلۂ فلسطین سے غداری اور عالم اسلام کے ازلی دشمن سے سمجھوتہ کرنے کا نتیجہ منہ پر طمانچہ کے سوا کچھ نہیں۔ سوڈان میں جنرلز کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، لیکن اسرائیل کے بارے میں اس ملک کے مسلمان عوام کی رائے نہیں بدلتی۔

تحریر: محمد صرفی۔ ایڈیٹر تہران ٹائمز