مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج عیدالفطر کے موقع پر اسلامی ممالک کے سفراء، ایرانی عوام اور حکام سے ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اتحاد کو امت مسلمہ کی ایک اہم اور فوری ضرورت قرار دیتے ہوئے صہیونی غاصب حکومت کے نمایاں زوال اور قوت میں واضح کمی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ اہم پیشرفت فلسطینی قوم اور نوجوانوں کی مزاحمت کی بدولت ہوئی ہے اور عالم اسلام کی آج کی حکمت عملی فلسطین کے اندر مزاحمتی تحریکوں کی مدد اور تقویت پر مرکوز ہونی چاہیئے۔
حضرتِ آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے رمضانُ المبارک کے مہینے کو مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کرنے کیلئے زمینہ قرار دیا اور مزید فرمایا کہ اسلامی ممالک کے حکام اس فرصت سے امت اسلامیہ کے اتحاد اور اختلافات کو کم اور حل کرنے کیلئے استفادہ کریں۔
رہبر انقلابِ اسلامی نے جنگ و اختلاف، دست وگریباں، انحصار، غربت اور علمی پیشرفت کی کمی سمیت اسلامی ممالک کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قرآنی حکم (الٰہی رسی کے گرد اتحاد) پر عمل کیا جائے تو تقریباً دو ارب کی آبادی اور دنیا کے اہم ترین اور حساس ترین جغرافیائی علاقوں پر مشتمل اسلامی دنیا مسائل کی دلدل سے نکل کر ترقی کی طرف قدم بڑھا سکتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ایک قرار دیا اور غاصب صہیونی حکومت کے بتدریج زوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ چند سال قبل شروع ہونے والا غاصب صہیونی حکومت کا یہ زوال اب تیز ہو گیا ہے اور عالم اسلام کو اس عظیم موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو نہ صرف اسلامی، بلکہ ایک انسانی مسئلہ قرار دیا اور غیر اسلامی ممالک میں یوم القدس کی ریلیاں اور مظاہروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں یوم القدس کے موقع پر صہیونیت مخالف احتجاجی مظاہرے غاصب صہیونیوں کے بڑھتے ہوئے جرائم کا نتیجہ ہیں۔
رہبر انقلاب نے مزید فرمایا کہ فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت میں صہیونیوں سے وابستہ متعدد یورپی ممالک کے لوگوں کا مظاہرہ بہت اہم ہے۔
انہوں نے فلسطین میں حالیہ رونما ہونے والے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے فلسطین کے اندر مزاحمتی تحریکوں کی مدد کو آج عالم اسلام کا ضروری لائحہ عمل قرار دیا اور فرمایا کہ جبھۂ مقاومت کی گراں قدر کوششوں کے متوازی، مزاحمتی محاذ اور تمام اسلامی ممالک کو فلسطین کے اندر جہاد میں مصروف مزاحمتی تحریکوں کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔