مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل اسماعیل قاآنی نے مقاومتی میڈیا کے شہداء کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں مقاومت کا لفظ مسلم اور غیر مسلم ملکوں میں سب سے نمایاں اور اثر انگیز الفاظ میں سے ایک ہے۔ اس سے پہلے مقاومت کا یہ بیش بہا لفظ اتنا زیادہ دہرایا نہیں جاتا تھا اور انسانوں کی اتنی بڑی تعداد اس کے سامنے سر تعظیم خم نہیں کرتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ میدان مقاومت کے شہدا، ان کے شانہ بشانہ کھڑا میڈیا اور خاص طور پر مقاومتی میڈیا کے عالی قدر شہدا کی جاں فشانیوں کا نتیجہ ہے جو مقاومت کی خوبصورتیوں کے جلووں کی حقیقی انداز میں عکاسی کرنے میں کامیاب ہوئے، یہاں تک کہ اسلام کے دشمن اور مقاومتی محاذ کے دشمن بھی جب اس گراں قدر لفظ مقاومت پر پہنچتے ہیں تو تعظیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
جنرل قاآنی نے مقاومت کے سامنے عالمی استکبار کی منطق کے شکست کھانے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی استکبار اور بین الاقوامی صہیونیت جن میں امریکہ اور غاصب صہیونی ریاست سرفہرست ہیں، نے دنیا کو یہ باور کروایا ہوا تھا کہ جس کے پاس بھی ہتھیار، جنگی ساز و سامان اور دولت زیادہ ہوگی مختلف جنگوں میں اسی کو کامیابی ملے گی۔ کیونکہ ان کا گزر بسر اور روزی روٹی کا بندوبست ہتھیار بیچ کر ہی ہو رہا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے ہتھیار بیچنے کے لیے دنیا میں جنگیں شروع کیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاہم وہ لوگ جو دنیا والوں کو یہ سیکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ جنگوں کی تقدیر کا فیصلہ ہتھیار اور ساز و سامان کرتے ہیں، آج اقرار کر رہے ہیں کہ میدان جنگ میں انہی کو فتح نصیب ہوتی ہے جو زیادہ مقاومت اور مزاحمت کا مظاہرہ کریں۔
سپاہ قدس کے کمانڈر نے یہ بھی کہا کہ یہ وہ جملہ ہے جو آج دنیا کے بہت سے مطالعاتی مراکز، حکام اور ماہرین جنگ بول رہے ہیں۔ یہ سب مقاومتی محاذ کے جوانوں کی قربانیوں اور میڈیا کی طرف سے ان اقدار کی صحیح عکاسی بالخصوص میڈیا کے شہداء کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ متعدد ناکامیوں کے بعد اس حالیہ دور میں شروع ہونے والی ہائبرڈ جنگ میں دشمن کے اہم ہتھیاروں میں سے ایک میڈیا ہے اور یہ میڈیا وسیع پیمانے پر دشمن کے ہاتھ میں ہے تاہم آج الحمدللہ مقاومتی محاذ اور مقاومتی میڈیا نے اپنے محدود وسائل کے باوجود لگن اور پختہ عزم کے ساتھ اپنی صلاحیت میں روز بروز اضافہ کیا ہے جسے بلاشبہ جاری رہنا چاہیے لیکن اپنی اس محدود توانائی کے ساتھ یہ میڈیا مقاومتی محاذ کی ان خوبصورتیوں کو پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔