تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
(مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان)
قرآن کریم کے ذریعے اللہ کریم نے متعدد بار مومنوں کو باہم جُڑے رہنے اور اتحاد و اتفاق اور نظم پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افتراق اور انتشار کے نقصانات سے بھی خبردار فرمایا ہے۔ کہیں پر مومنین سے فرمایا ہے کہ سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ، کہیں پر تنبیہہ فرمائی ہے کہ اگر تم انتشار میں پڑو گے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ کہیں پر فرمایا ہے کہ اتحاد توڑو گے تو ذلیل و رسوا رہو گے۔ یہ ہدایات تو اجتماعی، قومی اور معاشرتی سطح پر وحدت قائم رکھنے کے لیے ہیں، لیکن دوسری طرف اللہ کریم نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیتے ہوئے برابر حقوق عطا فرمائے ہیں اور ان بھائیوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ باہم محبت اور احسان کیساتھ متحد رہیں۔ اسی طرح اللہ تعالےٰ نے اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے بھی اہل ایمان و اہل اسلام کو یہی مشورہ دیا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے جب ایک مٹھی کی طرح نہیں ہوں گے، تب دشمن پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ اس تسلسل میں کئی غزوات اور جنگوں کے حالات و واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے، جس میں باہمی اتحاد کو کمزور کیا گیا تو پریشانی اور ہزیمت کا سامنا کرنا۔
انہی مثالوں اور واقعات کے ذریعے اللہ تعالےٰ نے مستقبل کے لائحہ عمل کی تشکیل کی طرف متوجہ کیا ہے، تاکہ باہمی مشاورت اور باہمی وحدت کے ذریعے دشمن اسلام و دشمن ایمان کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن سکیں۔ انفرادی سطح پر وحدت، صلہ رحمی، محبت اور اتحاد کی اہمیت کو بھی قرآن کریم نے کئی مقامات پر اجاگر کیا ہے۔ دو بھائیوں کے درمیان اختلاف، انتشار اور نفرت کو ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے اور باہمی جھگڑے کی مذمت کی ہے۔ انفرادی سطح پر بھی مسلمانوں اور انسانوں کو ہدایت فرمائی ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ جھگڑا نہ کریں بلکہ باہم پیار و محبت کے ساتھ شیر و شکر ہو کر زندگی گذاریں۔ اختلاف اور نفرت کے خاتمے اور محبت و اتحاد کے فروغ کے لیے اللہ تعالےٰ نے مسلمانوں کو اس قدر تشویق دلائی ہے کہ دو ناراض بھائیوں اور دو مخالف انسانوں کے درمیان صلح کرانے کے عمل کو پسندیدہ ترین اور احسن عمل قرار دیا ہے۔ صلح اور اتحاد قائم کرانے والے انسانوں اور مومنین کو آخرت اور دنیا میں کامیابی کی نوید دی ہے جبکہ وحدت و محبت قائم کرنے والے انسانوں کو سب سے زیادہ عظیم قرار دیا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس جس نے قرآنی احکامات اور ہدایات کو بغور پڑھا ہے اور ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی اہل بیت اطہار ؑ کی سیرت ِاطہر سے روشنائی حاصل کی ہے، اس اس ہر شخص نے وحدت اور اتحاد کو قرآنی حکم سمجھ کر اور حکم ِرسول ؐ و آلِ رسول ؐ سمجھ کر اپنے اوپر ذمہ داری عائد کر لی ہے کہ وہ مسلمانوں اور اہل ایمان کے درمیان صلح و اتحاد و اخوت اور وحدت قائم کرنے کی بھرپور سعی کرے گا۔ یوں تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری تاریخ میں ایسی شخصیات کا بہت زیادہ تذکرہ موجود ہے کہ جنہوں نے وحدت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ اسی طرح اجتماعی سطح پر ہونے والی کوششیں اور کاوشیں بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں، لیکن گذشتہ نصف صدی میں اس کی سب سے بڑی مثال انقلاب اسلامی ایران ہے۔ ایران کی سرزمین پر 1979ء میں برپا ہونے والا یہ مذہبی انقلاب بہت ساری مختلف جہات رکھتا ہے، لیکن ان جہات میں سب سے بڑی جہت وحدت اسلامی کی ہے۔ یہ بات صرف انقلابی حکومتوں اور انقلابی قیادت کے حصے میں آئی ہے کہ جس نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا۔
رہبر انقلاب حضرت امام خمینی ؒ نے وحدت کو جہاں قرآنی حکم سمجھتے ہوئے اپنایا، وہاں عالم اسلام کے معروضی حالات کا بھی بغور مطالعہ و مشاہدہ کیا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ جب تک مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت قائم نہیں ہوگا، تب تک مسلمان ترقی نہیں کرسکتے۔ امام خمینی ؒ نے جب دیکھا کہ اسلام دشمن استعماری قوتیں مسلمانوں کو مسلک اور فرقے کے نام پر لڑا کر نہ صرف منتشر کر رہی ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا رہی ہیں۔ مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا اور مسلمانوں کے درمیان موجود چند فروعی مسائل اور جزوی اختلافات کو ہوا دے کر آپس میں دست بگریبان کیا جا رہا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی کمزوریوں سے منفی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اندر گروہ در گروہ تشکیل کرکے اور اس گروہ بندی کی حوصلہ افزائی کرکے انتشار کو مزید مستحکم کیا جا رہا ہے تو انہوں نے ایران سے وحدت کی آواز بلند کی۔
اسلامی انقلاب کی وحدت کے حوالے سے مثال اس لئے بھی جداگانہ ہے کہ انقلاب کے قائدین نے سب سے پہلے اپنے گھر یعنی ایران میں وحدت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ انقلاب لانے سے پہلے ہی ایران کے شیعہ، سنی حتیٰ کہ لبرلز اور سوشلسٹ و کیمونسٹ طبقات بھی باہم متحد ہوئے۔ اسی اتحاد کی وجہ سے جب انقلاب اسلامی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا تو حضرت امام خمینی ؒ نے حکومتی اور سرکاری وسائل کو استعمال کرکے نہ صرف ایران میں شیعہ سنی اتحاد کا عملی مظاہرہ فرمایا بلکہ وحدت کی اس آواز کو دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک بالخصوص مسلم ممالک تک پہنچایا۔ وحدت کے قیام کے لیے انہوں نے زبانی جمع خرچ نہیں کیا بلکہ عملی طور پر اس کار ِخیر اور کارِ عظیم کے لیے باقاعدہ ادارے تشکیل دیئے، جو اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کسی اسلامی ملک نے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر تشکیل نہیں دیئے۔ وحدت کا یہ عمل اور اداروں کی تشکیل کسی کمزوری کے سبب نہیں بلکہ وحدت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے انجام دیا۔
انقلاب اسلامی کی برکات میں سے ایک بہت بڑی برکت مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا فروغ ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے پر درد اور اسلام شناس علماء و فضلاء و اکابرین اور قائدین کو اس مشن کے لیے جمع کرنے کا سلسلہ بھی ایران نے شروع کیا۔ اسلامی انقلاب نے وحدت مسلمین کے لیے اپنے بے پناہ وسائل خرچ کئے۔ عالمی سطح پر متعدد اور مسلسل کانفرنسیں، سیمینارز اور پروگرام منعقد کرائے۔ دنیا بھر میں وحدت کے لیے ہونے والی ہر سرگرمی کی حوصلہ افزائی کی۔ وحدت کا پیغام ہر اسلامی و غیر اسلامی ملک کے کونے کونے تک پہنچایا۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو جہاں وحدت کی طرف متوجہ کیا، وہاں اسلامی ممالک میں موجود سیاسی بالخصوص دینی جماعتوں کو اتحاد کے قیام کے لیے متحرک کیا۔ دنیا میں اسلامی اتحاد کے لیے بننے والا ہر فورم آج انقلاب اسلامی کا رہین احسان ہے۔ جس کے سبب مسلمانوں کے اندر وحدت و اتحاد کو فروغ مل رہا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی گذشتہ چار دہائیوں سے ہونے والی وحدتی اور اتحادی خدمات کو اسلامی انقلاب کی طرف سے مسلسل حوصلہ افزائی مل رہی ہے۔ امام خمینی ؒ کے براہ راست نمائندہ اور پاکستان کی اسلامی قیادت نے بھی اتحاد کے اس پیغام کو بہت زیادہ قربانیاں دے کر آگے بڑھایا ہے۔ متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل اس کے بڑے مظاہر میں سے ہیں۔ جس کے ذریعہ بدترین حالات میں بھی وحدت کی خوشبو نصیب ہوتی رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے تمام تر مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا حل صرف اور صرف اتحاد و وحدت میں مضمر ہے۔ اس کے لیے ہم سب کو جہاں انقلاب اسلامی ایران کا مرہون منت ہونا چاہیئے، وہاں انقلاب اسلامی سے متصل رہ کر ہر ممکن استفادہ بھی کرنا چاہیئے۔