مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، متاثرہ علاقوں میں زلزلے کے بعد آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے۔ زلزلے سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق ترکیہ میں 14ہزار14 اور شام میں 3ہزار 162 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اسپتال منتقل کیے گئے اور ملبے سے مزید نکلنے والے زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔
ترک وزیر صحت نے بتایا کہ ملبے تلے دبنے والے 8 ہزار افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے جبکہ مزید کی تلاش جاری ہے اور اموات میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بے گھر ہونے والے 3 لاکھ 80 ہزار شہریوں کو رہائش بھی فراہم کردی گئی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے ملک بھر میں ایک ہفتے کے سوگ کا اعلان کر دیا جس کے دوران قومی پرچم سرنگوں رہے گا جب کہ تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ ترک صدر نے زیادہ متاثر 10 صوبوں میں 3 ماہ کیلیے ایمرجنسی کا اعلان بھی کیا ہے۔
ترک صدر صوبہ غازیان تیپ کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ زلزے سے 63ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ 6400 سے زائد عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ایک سال کے اندر تین سے چار منزلہ عمارتیں تعمیر کر دی جائیں گی۔
ہزاروں شامیوں کی اموات پر مغرب کی بند آنکھیں
ایسے وقت میں 65 سے زائد ممالک سے امداد ترکیہ پہنچ چکی ہے جب شام کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے سربراہ کے مطابق ایران، متحدہ عرب امارات، روس اور بھارت سے انسانی امداد لے جانے والے صرف 4 طیارے بشمول عراق کے 2 طیارے شام بھیجے گئے ہیں۔
اس کے بعد عراق اور افغانستان بھی اس تعداد میں شامل ہوئے جس سے مجموعی طور پر شام کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کی تعداد 6 ملکوں تک پہنچ گئی ہے۔ دو ملک جو 2001 اور 2003 کے بعد سے امریکی قبضے کے بعد سب سے مشکل معاشی، اقتصادی اور سلامتی کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
عراقی حکومت شام اور ترکیہ کے زلزلہ زدہ لوگوں کی مدد کے لیے درجنوں ٹن خوراک اور ادویات لے کر پہنچی، 200 امدادی کھیپیں بھیجیں اور 150 ہنگامی طبی عملے کو روانہ کیا۔ دریں اثنا حشد الشعبی کے انجینئرنگ اور امدادی یونٹوں کو شام کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لیے متحرک کر دیا گیا۔