دنیا کے 65 ممالک بالخصوص مغربی حکومتوں کی جانب سے ترکیہ میں زلزلے کے متاثرین کی امداد اور شام کی بالکل اسی صورتحال کے سامنے ان کی معنی خیز خاموشی نے ایک بار پھر انسانی مسائل کے حوالے سے مغربی ملکوں کے دوہرے معیار کو ظاہر کر دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک: ترکیہ کے جنوبی علاقوں اور شمالی شام میں 7.7 شدت کے زلزلے کے چند روز بعد زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ملبہ ہٹانے کا کام تیزی سے جاری ہے جبکہ اس المناک واقعے کے متاثرین کی تعداد میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 

 متاثرہ علاقوں میں زلزلے کے بعد۔ آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے۔ زلزلے سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق شام میں 2 ہزار 470 اور ترکیہ میں 8 ہزار 500 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اسپتال منتقل کیے گئے اور ملبے سے مزید نکلنے والے زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔

ترکیہ اور شام کے سرکاری اعدادوشمار کے باوجود جو وقت کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ ہو رہے ہیں اور زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ملبہ ہٹانے میں تیزی آ رہی ہے، دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے پیش گوئی کی ہے کہ ترکیہ اور شام میں 7.7 شدت کے زلزلے میں ممکنہ طور پر تقریباً 20 ہزار افراد جاں بحق ہو سکتے ہیں۔

ترکیہ کی طرف مغربی امداد کا سیلاب اور شام کو نظر انداز کرنا

باوجود اس کے کہ جنوبی ترکیہ اور شمالی شام کے لوگ زلزلے سے متاثر ہوئے اور ان دونوں ملکوں کو عالمی امداد کی ضرورت تھی، بدقسمتی سے مغربی دوہرا معیار ایک بار پھر ظاہر ہو کر سامنے آرہا ہے۔ ایک ایسا معیار جو پہلے انسانی حقوق، دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے مسائل کے حوالے سے خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا تھا اور اب اس میں زلزلہ زدگان کی مدد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

زلزلے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ سمیت نیٹو کے رکن ملکوں نے زلزلہ زدگان کی مدد اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے اپنے 1400 سے زائد ہنگامی امدادی کارکنوں کو ترکیہ بھیجا اور اس فوجی اتحاد نے منگل کی رات ایک بیان میں اعلان کیا کہ ریسکیو اور ایمرجنسی رسپانس فورسز میں فن لینڈ اور سویڈن سمیت نیٹو کے 20 سے زیادہ اتحادیوں اور شراکت داروں کے امداد کارکن شامل  ہیں۔

نیٹو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اتحاد کی جانب سے ترکیہ کو دی جانے والی امداد میں مختلف قسم کے امدادی اقدامات شامل ہیں جن میں ریسکیو کتوں کے ساتھ ریسکیو ٹیمیں، فائر فائٹرز اور سٹرکچرل انجینئرنگ ٹیمیں، طبی عملہ اور آلات اور زلزلہ کے ماہرین شامل ہیں۔

یہ انسانی امداد اس وقت تک جاری رہی جب تک ترکیہ کے ایمرجنسی مینجمنٹ سینٹر (افاد) کے سربراہ نے اعلان نہیں کیا کہ انہیں 65 ملک امداد بھیج رہے ہیں۔

انہوں نے ترکیہ میں زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے بیرون ملک سے بھیجے گئے فوجیوں کی تعداد 16,400 آمادہ اور تربیت یافتہ اہلکاروں کے طور پر بتائی اور کہا کہ زلزلہ متاثرین کے لیے پناہ گاہوں کی فراہمی کو ترجیح دی گئی ہے اور اب تک تقریباً 65,000 خیمے، 300,000 سے زائد کمبل اور ہیٹر سمیت دیگر اشیاء متاثرہ علاقوں میں بھیجی جا چکی ہیں۔

ہزاروں شامیوں کی اموات پر مغرب کی بند آنکھیں

ایسے وقت میں 65 سے زائد ممالک سے امداد ترکیہ پہنچ چکی ہے جب شام کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے سربراہ کے مطابق ایران، متحدہ عرب امارات، روس اور بھارت سے انسانی امداد لے جانے والے صرف 4 طیارے بشمول عراق کے 2 طیارے شام بھیجے گئے ہیں۔

اس کے بعد عراق اور افغانستان بھی اس تعداد میں شامل ہوئے جس سے مجموعی طور پر شام کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کی تعداد 6 ملکوں تک پہنچ گئی ہے۔ دو ملک جو 2001 اور 2003 کے بعد سے امریکی قبضے کے بعد سب سے مشکل معاشی، اقتصادی اور سلامتی کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

عراقی حکومت شام اور ترکیہ کے زلزلہ زدہ لوگوں کی مدد کے لیے درجنوں ٹن خوراک اور ادویات لے کر پہنچی، 200 امدادی کھیپیں بھیجیں اور 150 ہنگامی طبی عملے کو روانہ کیا۔ دریں اثنا حشد الشعبی کے انجینئرنگ اور امدادی یونٹوں کو شام کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لیے متحرک کر دیا گیا۔

اسی طرح اس حقیقت کے باوجود کہ افغانستان شدید مالی اور اقتصادی مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے پھر بھی ترکیہ اور شام کے زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے انسانی بنیادوں پر کردار ادا کرنے کے لیے اس کی جانب سے 15 ملین افغانی (تقریباً 1 لاکھ 67 ہزار ڈالر) کی رقم مختص کی گئی اور طالبان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا اور لکھا کہ انسانی ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر اس نے ترکیہ کو 10 ملین افغانی ($ 111,000) اور شام کو 50 لاکھ افغانی ($ 56,000) کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ 

شامی عوام کے مصائب کے حوالے سے مغرب کی بے حسی کے علاوہ عرب ممالک کی بے حسی بھی احتجاج کی لہر کی بنیاد بن رہی ہے۔ شام کے زلزلہ زدہ عوام کے لیے انسانی امداد بھیجنے میں عرب ممالک کی بے حسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے "رائ الیوم" اخبار نے لکھا ہے کہ ان ممالک کو شام کی حکومت اور عوام کے بارے میں اپنی پالیسی اور معاندانہ روش پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جو گیارہ سال سے امریکہ اور صہیونی حکومت کی جنگ کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ شام کو گیارہ سال سے زائد عرصے سے تباہ کن جنگ کا سامنا ہے جس کے پیچھے  امریکہ اور اسرائیل ہیں اور انہیں ترکیہ، بعض عرب ملک اور خلیج (فارس) کی پٹی کے متعدد عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔

رائ الیوم نے لکھا ہے کہ ہم اس عرب نژاد ملک (شام) کے حوالے سے بعض عرب ملکوں کی بے حسی پر بہت حیران ہیں جبکہ اس ملک ﴿شام﴾ نے کسی پر حملہ نہیں کیا اور امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کا سب سے بڑا شکار ہے، چنانچہ پیر کی صبح آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد عرب ملکوں نے ترکیہ میں زلزلے کے متاثرین کو بچانے کے لیے امداد اور ماہرین کو بھیجنے کے لیے فضائی پل بنائے تھے تاہم انہوں نے شام کے لیے اگرچہ بہت ہی کم کیوں نہ ہو، کچھ نہیں کیا۔

نتیجہ سخن

ایسے وقت میں کہ جب مغربی ممالک ترکیہ کے جنوب اور شام کے شمال مغرب میں آنے والے زلزلے کے مسئلے پر دوہرا رویہ اپنائے ہوئے ہیں، ان کے انسانی حقوق کے دعوے گوش فلک کے کانوں تک کو بہرا کر رہے ہیں، البتہ ان کی یہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں کیونکہ ان کا دوہرا معیار اور ایک بام دو ہوا کی پالیسی برسہا برس ہوچکے کہ دنیا والوں کے سامنے آچکی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکیہ کے عوام کو اس وقت فوری بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے لیکن شام کے متاثرہ لوگوں کو بھی اس امداد کی ضرورت ہے۔ اس جنگ زدہ ملک کے عوام 12 سال سے مغربی، عبرانی اور عرب محور کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہیں اور ان برسوں کے دوران شام کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ انسانی اور بشر دوستانہ امداد کا نعرہ ایک ٹول اور آلے کی حیثیت سے اسی وقت ہٹے گا اور حقیقت کا روپ دھارے گا جب زلزلہ زدگان اور دنیا کے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد سیاسی لین دین سے ہٹ کر کی جائے گی۔ اس وقت دنیا کو شامی عوام کے جسموں پر بیٹھے مٹی کے ان تودوں اور شامی بچوں پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں جو بیک وقت زلزلے اور سردی کی وجہ سے بدترین حالات سے دوچار ہیں۔