مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغان صحافی سعید اللہ صافی نے ہفتے کے روز دیر گئے ٹویٹ کیا کہ افغان صحافیوں کی رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے اور اپنے عملے کے 19 ارکان کو افغانستان سے نکال لیا ہے۔
ایک اور افغان میڈیا ایکٹیوسٹ بلال سروری نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ کابل میں سعودی سفارت خانے کے تمام 19 ملازمین نے بغیر کسی وضاحت کے سفارت خانے کی عمارت خالی کر دی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ سعودی عرب نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا۔ سفارت خانہ اپنے اثاثے، اپنی کاریں اور دیگر چیزیں بیچنا چاہتا ہے۔ ایک طالبان اہلکار نے مجھے بتایا کہ تاہم ہمیں اس کارروائی کی وجہ معلوم نہیں ہے۔
اسی دوران بعض افغان میڈیا نے اعلان کیا کہ سعودی عرب نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ خالی کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اگست 2021 میں بھی سعودی عرب نے افغانستان میں غیر مستحکم حالات کی وجہ سے کابل میں موجود اپنے سفارتی مشن کے ارکان کو نکال لیا تھا۔
در ایں اثنا غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے بعد امارات نے بھی کابل میں اپنا سفارتخانہ بند کردیا ہے۔ اس طرح یہ دوسرا خلیجی عرب ہے جس نے افغانستان میں اپنا سفارتخانہ بند کردیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق طالبان کی جانب سے سفارت خانے کی خواتین ملازمین پر سرگرمیاں جاری رکھنے پر پابندی کے بعد بدھ کے روز کابل میں سعودی عرب کے سفارت خانے کے سفارت کار اپنے ملک واپس چلے گئے۔
بظاہر سعودیوں نے یہ کام خواتین ملازمین کی ملازمت پر پابندی کے جواب میں کیا ہے تاہم کہا جارہا ہے کہ یہ کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔
میڈیا ذرائع اس بات کا بھی امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ کابل میں سعودی عرب کے سفارت خانے کو سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات کی وجہ سے خالی کیا گیا ہے۔
افغان میڈیا نے اعلان کیا کہ طالبان کی جانب سے 2021 میں ریاض کے ساتھ تعامل کو نظر انداز کرنے کے بعد سعودی عرب بظاہر طالبان سے ناراض ہے۔
طالبان کو توقع ہے کہ کابل میں سعودی عرب کے سفارت خانے کی سرگرمیاں آئندہ چند روز میں اور مذاکرات کے بعد دوبارہ شروع ہو جائیں گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ طالبان بظاہر سعودی عرب کو اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے لئے مطلوبہ ضمانتیں اور یقین دھانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔
افغان میڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ سعودی سفارتخانے کی بندش کی وجہ طالبان اور قطری حکومت کے درمیان توازن برقرار نہ رکھنا ہے۔
تاہم سعودی عرب کی حکومت اور طالبان نے اس معاملے پر سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
mehrnews.com/xZtzv