شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے کیف کی جانب سے پیونگ یانگ ﴿شمالی کوریا﴾ سے تعلقات ختم کرنے کے اقدام پر رد عمل دیتے اعلان کیا کہ یوکرائن کو یہ حق حاصل نہیں کہ شمالی کوریا کے اپنی سالمیت کے حق کے جائز استعمال پراعتراض کرے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شمالی کوریا کی جانب سے ڈونٹسک اور لوہانسک کی حکومتوں کو رسمی طور پر قبول کرنے کے بعد یوکرین کے حکام نے پیونگ یانگ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا، در ایں اثنا شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اپنے رد عمل کا اظہار کیا:  ماضی میں یوکرین کے پیونگ یانگ کے خلاف امریکہ کی مخاصمانہ، غیر منصفانہ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے بعد کہ جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں انصاف سے دور شمار ہوتا ہے، اسے حق حاصل نہیں ہے کہ کسی مسئلے کو اٹھائے یا اپنی سالمیت اور اقتدار کے حق کے جائز استعمال پر ہمارے اوپر اعتراض کرے۔  

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم ایسے تمام ملکوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کے استحکام اور توسیع کو جاری رکھیں گے جو ہمارے قومی اقتدار کا احترام کرتے ہیں اور مساوات و برابری، داخلی امور میں عدم مداخلت، اور باہمی احترام کے اصول کے مطابق مثبت رویہ رکھتے ہیں۔  

شمالی کوریا کی وزارت خارجہ یہ اعلان بھی کیا کہ ان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام دفاعی بچاو کے لئے ہے تاہم امریکہ عالمی پابندیاں لگا کر اور جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کر کے شمالی کوریا کے خلاف اپنی مخاصمانہ سیاست کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ 

گزشتہ ہفتے ماسکو میں شمالی کوریا کے سفارتخانے نے اعلان کیا تھا کہ پیونگ یانگ لوہانسک اور ڈونٹسک کی خودمختار ریاستوں کے استقلال کی رسمیت کو قبول کرتا ہے۔ کی ایف کی جانب سے اس کے رد عمل پیونگ یانگ کے ساتھ اپنے تعلقات مکمل طور پر ختم  کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

یہ ایسے میں ہے کہ جب روسی صدارتی دفتر کے ترجمان نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ ماسکو شمالی کوریا کی جانب سے ڈونٹسک اور لوہانسک کی خودمختاری کو قبول کرنے کو مثبت سمجھتا ہے۔فروری میں روس کے صدر پیوٹن نے حکم ناموں پر دستخط پر کرتے ہوئے ڈونباس کی خود مختاری حکومتوں کی رسمیت کو قبول کیا تھا اور اس کے نتیجے میں یوکرین میں روسی فوجی اقدامات کا آغاز ہوا۔ ڈونٹسک اور لوہانسک کی خودمختار حکومتوں نے اپریل ۲۰١۴ میں اپنی خودمختاری کا اعلان کیا تھا اور اس وقت سے کی ایف کی مرکزی حکومت کے ساتھ اس مسئلے میں ان کا تنازع چل رہا ہے۔