حالیہ سالوں کے دوران علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ بنیادی مفاہیم کے استعمال میں تبدیلی کی نشاندھی کرتی ہیں، در حقیقت جب بھی مغرب کے مفادات تقاضا کریں تو یہاں تک کہ جارح اور مدافع کی جگہ بھی تبدیل ہوجائے گی۔ 

مہر نیوز ایجنسی| محمد علی تخت روندہ: پیر کی شام اقوام متحدہ میں صہیونی ریاست کے مندوب نے ایک مضحکہ خیز موقف اپناتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے اراکین کے نام ایک خط لکھا اور بحیرہ روم میں حزب اللہ لبنان کی ڈرون کاروائی کے خلاف اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا!
اسرائیلی ذرائع نے خبر دی ہے کہ اقوام متحدہ میں صہیونی ریاست کے مندوب گلعاد اردان نے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ کاریش گیس فیلڈ (جو کہ لبنان اور صہیونی حکومت کے مابین متنازعہ سمندری علاقے میں ہے) کے اوپر حزب اللہ لبنان کی ڈرون کاروائی کی مذمت کریں۔  
اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب نے یہ خط اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیریس اور سلامتی کونسل کے اراکین کے نام لکھا اور اس میں حزب اللہ کی ڈرون کاروائی کو اشتعال انگیز کہا۔ 
روزنامہ یروشلم پوسٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب نے اس کاروائی میں استعمال ہونے والے ڈرون طیاروں کو ایرانی قرار دیا، جبکہ یہ وہ دعوی ہے کہ جو ہمیشہ صہیونیوں کی جانب سے ایران پر دباو بڑھانے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔  
جارح کون ہے؛

دو عینی مثالوں کا تجزیاتی جائزہ

قابل ذکر ہے کہ کاریش گیس فیلڈ میں اسرئیل کا گیس اخراج کرنے کا پیلٹ فارم بنانا، صہیونی ریاست کا سب سے پہلا اشتعال انگیز اقدام تھا کہ جو اس نے بحیرہ روم میں اپنے اور لبنان کے مابین متنازعہ علاقوں میں اٹھایا۔  

اس کے بعد بھی لبنانی حکام نے طرفین کے مابین مشترک سمندری سرحدوں کی حدبندی کے متعلق مذاکرت کی ضرورت پر زور دیا تھا جس کا اسرائیل کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا اور نہ ہی امریکہ کی طرف سے ثالثی سامنے آئی۔ تاہم باوثوق ذرائع نے خبر دی ہے کہ تل ابیب نے امریکی چینل سے لبنانی حکام کو کہا ہے کہ کاریش گیس فیلڈ سے گیس کا اخراج شروع  کردے گا اور اس مسئلے کو سرحدی حدبندی کے مذاکرات کے نتائج پرموکول نہیں کرے گا۔ 

اس رد عمل کے بعد حزب اللہ لبنان نے کاریش گیس فیلڈ کے اوپر ڈرون کاروائی کا اقدام اٹھایا اور صہیونی حلقوں میں اس مسئلے پر بہت چہ مگوئیاں ہوئیں۔ اس کاروائی کے بعد اسرائیلی حکام اور امریکہ نے لبنانی حکومت کو اطلاع دی کہ مذاکرات میں سمجھوتہ طے پانے جانے تک کاریش گیس فیلڈ سے گیس کے اخراج کا عمل شروع نہیں کریں گے۔ 

حقیقت میں کاریش گیس فیلڈ کے اوپر حزب اللہ کی ڈرون کاروائی لبنان کے قومی مفادات کے لئے ایک انتباہی اقدام تھا کہ فوری طور پر جس کا نتیجہ بھی برآمد ہوا۔ تاہم اب اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب کا یہ دعوی انتہائی مضحکہ خیز نظر آتا ہے، کیونکہ صہیونی ریاست فضائی اور زمینی کاروائیاں کر کے تقریباً روزانہ ہی لبنان، شام اور دوسرے ممالک کی حدود کی خلاف ورزی کرتی ہے لیکن اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے ان اقدمات پر کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کرتے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہاں تک کہ لبنان کے سرحدی علاقوں کا ایک حصہ اسرائیل کے نائز قبضے میں ہے اور اسرائیلی افواج آئے روز ان علاقوں پر حملہ آور ہو کر لبنانی کی قومی خود مختاری کو سبوتاژ کرتی ہیں۔ 

حال ہی میں دمشق اور طرطوس کے ائیرپورٹس پر اسرائیلی فضائی حملے روسی رد عمل کا سامنا کر چکے ہیں تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان حملوں کی مذمت کے لئے روسی کوشش امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی وجہ سے کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکی۔  
یمن کے حالات کے متعلق بھی یہ مسئلہ واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب ۲۰۱۵ سے یمن کے خلاف ایک جامع الجہات عسکری جارحیت شروع کئے ہوئے اور اس ملک پر تباہ کن جنگ مسلط کئے ہوئے ہے۔ سعودی عرب نے ان حملوں کے علاوہ یمن کو سمندری، زمینی اور فضائی طور پر بھی محاصرے میں رکھا ہوا ہے جبکہ یہی محاصرہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے ایک عسکری جارحیت شمار ہوتی ہے۔

تاہم حالیہ سالوں میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جیسے عالمی اداروں نے نہ فقط یہ کہ جارح طرف یعنی صہیونی ریاست اور سعودی عرب کی مذمت کرنے سے اجتناب کیا ہے بلکہ بہت سے مواقع پر اپنے ملک اور خود مختاری کا دفاع کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ یہ صورتحال ایسے میں ہے کہ اس مربتہ بھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے اپنا دفاع کرنا ایک مکمل طور پر تسلیم شدہ حق شمار ہوتا ہے۔ 

یہاں جو سوال اٹھتا ہے یہ ہے کہ حالیہ سالوں کے دوران کیا خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور حالات میں جارح اور مدافع کی جگہ تبدیل نہیں ہوگئی ہے؟ جواب ہاں میں ہے! جب تک اقوام متحدہ اور اس سے منسوب سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے مغربی تسلط میں ہوں ہمیں ان سے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے معانی و مفاہیم کے ساتھ کسی منصفانہ برتاو کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب مغرب والے خود کو دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا بانی سمجھتے ہیں! تاہم خطے کی سطح پر حالیہ سالوں کی تبدیلیوں اور حالات نے ماضی سے بڑھ کر اس حقیقت کو ننگا کر کے نمایاں کیا ہے کہ جب بھی مغرب کے مفادات تقاضا کریں تو یہاں تک کہ جارح اور مدافع کی جگہ بھی تبدیل ہوجائے گی۔

لیبلز