مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہاکہ مغرب اگر یہ امید رکھتا ہے کہ یوکرین کے مسئلے کو مسلحانہ اور عسکری طریقے سے حل کرے تو صلح کے مذاکرات بے معنی اور بے فائدہ ہیں۔
لاوروف نے اس سلسلے میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہونے والی جی 20 ممالک کے جلسے سے خطاب کے دوران گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مغرب مذاکرات نہیں چاہتا اور میدان جنگ میں یوکرین کی روس پر فتح کا خواہاں ہے تو ممکنہ طور پر مغرب کے ساتھ بات چیت کے لئے کوئی چیز نہیں رہے گی، کیونکہ یہ طرز فکر یوکرین کو صلح کے عمل کی طرف بڑھنے نہیں دے گا۔
لاوروف کے اظہارات روسی صدر ولاڈیمر پیوٹن کے انتباہ کے بعد سامنے آئے ہیں۔ پیوٹن نے کہا تھا کہ اگر مغرب روس کو جنگ کے میدان میں شکست دینا چاہتا ہے تو ماسکو مغرب کی اس کوشش کا خیر مقدم کرے گا تاہم یہ اقدام یوکرین کو ٹریجڈی کی طرف دھکیل دے گا۔
پیوٹن نے مزید کہا تھا کہ مغرب روس کو قابو کرنے کی اپنی کوششوں میں ناکام ہوچکا ہے اور اگرچہ ان کی پابندیوں نے ماسکو کے لئے کچھ مشکلات کھڑی کی ہیں، یہ مشکلات مغرب والوں کے مد نظر پیمانے پر نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ روس صلح کے مذاکرات کو رد نہیں کرتا تاہم جتنا یہ تصادم آگے بڑھے گا سمجھوتے تک رسائی مشکل ہوتی چلی جائے گی۔
اسی دوران روسی افواج نے اپنی پیشقدمی جاری رکھی ہوئی ہے اور حال ہی میں لوہانسک کے علاقے (کہ روس اس کی علیحدگی کو رسمیت دے کر اسے عوامی جمہوریہ لوہانسک کہتا ہے) کے دو اسٹریٹجک شہروں سیویرو ڈونٹسک اور لیسیچانسک کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اس طرح مذکورہ علاقہ کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
روسی افواج نے یہ سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ڈونٹسک کے علاقے کی طرف اپنی پیشقدمی تیز کردی ہے اور اس علاقے پر بھی قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔