پاکستان کے ممتاز عالم دین علامہ شفقت شیرازی نے "مہر نیوز" کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ افغانستان کے بحران کا حل نہیں ہے لہذا افغانستان کے موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے افغانستان کے تمام گروپوں کو باہمی اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی کا شمار پاکستان کے انقلابی، فعال اور متحرک علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ علامہ صاحب اسوقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ کی حیثیت سے ملی و قومی فرائض انجام دے رہے ہیں،علامہ شفقت حسین شیرازی ہمیشہ ملی معاملات کے حل میں پیش پیش رہتے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں"مہر نیوز ایجنسی" نے حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی صاحب کیساتھ ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے:

مہر نیوز: سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔ تو ابتدا میں آپ افغانستان کے موجودہ حالات پر مختصر روشنی ڈالیں۔

جنگ افغانستان کے بحران کا حل نہیعلامہ شفقت شیرازی: اس وقت افغانستان کی صورتحال بہت پریشان کن ہے اور موجودہ حالات کی وجہ سے ساری دنیا پریشان ہیں کیونکہ اس جدید دور میں بھی افغانی، افغانیوں کا خون بہا رہے ہیں اور قتل و غارت کی وجہ سے علاقے میں دوبارہ بہت بڑی ہجرت کا خطرہ ہے اور اس  کےنتیجے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک شدید متاثر ہوں گے.یہ خطہ جو کہ  گذ شتہ  کئی دہائیوں  سے جو جنگ کی لپیٹ میں ہے اور دنیا کی سپر پاور نے اس خطے کی امن کو تباہ کیا ہے اور یہاں پر امن و امان برقرار رکھنے کے لیے یہاں کی عوام نے بہت بڑی قربانی دی ہیں  لیکن اب یہ خطہ  دوبارہ جنگ و قتل غارت کا متحمل نہیں ہوسکتا اور موجودہ صورتحال کے خاتمے کے لئے ایک   جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ  سمیت دنیا میں امن و امان برقرار رکھنے  والے تمام ادارے  اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کو متوقع جنگ اور خانہ جنگی سے بچانے کے لیے مل کر  موثر قدم اٹھائے، کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جنگ افغانستان کے مسائل کا حل نہیں لہذا سب کو مل بیٹھ کر  مثبت تعمیری مذاکرات کے ذریعے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے صحیح فیصلہ  کرنا ہوگا  تاکہ اس بحرانی کیفیت سے اس ملک اور خطے کو نکالا جاسکے اور اگر یہ بحران وسعت پیدا  کرتا ہے  تو یہ فقط افغانستان اور خطے کو نہیں بلکہ اس بحران سے پوری دنیا متاثر ہوگی اس لیے تمام بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل اور پائیدار امن کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں.

مہر نیوز : آپ کی نظر میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار کون ہے۔۔؟

افغانستان کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار امریکہ ،اس کی ناقص پالیسیاں اور امریکہ کی اس خطے سے دشمنی ہے کیونکہ امریکہ اور اسکے اتحادی نہیں چاہتے کہ اس خطے میں امن و امان ہوں اور یہ ممالک ترقی کریں، امریکہ جوکہ بہت عرصہ وہاں پہ رہا اور ان کو  اگر افغانیوں کی فکر ہوتی تو وہاں کی مشکلات کے حل کے لیے افغانی حکومت اور عوام سے مل کر کوشش کرتا، لیکن امریکہ  کو  جب خطے میں پے در پے ناکامیاں ہوئیں تو اس نے اپنی شکست کو چھپانے کے لئے خود طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور ہمسایہ ممالک سے مدد بھی طلب کی مگر  امریکہ نے کبھی بھی افغانستان کی مشکلات کے حل کے لیے افغان عوام اور  مقامی تنظیموں سے مدد لینے کی کوشش نہیں کی.
امریکہ نے جب 11 ستمبر کے بعد افغانستان پر چڑھائی کی اور جو بھی اس نے افغانستانی عوام سے وعدے کئے سب جھوٹے ثابت ہوئے، امریکہ کے لیے افغانستان اہم  نہیں تھا بلکہ وہ افغانستان میں صرف اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے آیا تھا، امریکہ نے اس ملک کو تباہ کرنے کے لیے دنیا بھر سے تباہ کن ہتھیار اور دھشت گرد اکٹھے کیے اور اس ملک کی امن و امان کو تباہ کردیا، معصوم بچوں اور خواتین کا قتل عام کیا اور اس ملک کو ہر قسم  کا نقصان پہنچایا. یہی امریکہ تھا کہ جب عراق اور شام میں داعش کو نابود کیا گیا تو وہاں سے داعشیوں کو افغانستان میں لایا چونکہ امریکہ اس خطے میں امن  نہیں چاہتا تھا اور افغانستان میں رہ کر پاکستان سمیت  ایران، روس اور دیگر ہمسایہ ممالک کی بھی امن  کو تباہ  کرنے کا خواہاں تھا تاکہ  جو ممالک اقتصادی حوالے سے ترقی کررہے ہیں اور  طاقت ایشیاء کی طرف  منتقل ہو رہی ہے  لہذا اس راستے کو روکا جاسکے۔ کیونکہ رشیا اور چائنہ دو بڑے ممالک ہیں اور اگر ان ممالک کے ساتھ پاکستان اور ایران بھی ساتھ مل جائے تو یہ دنیا کے نقشے کو بدل سکتے ہیں تو اس لحاظ سے امریکہ اس خطے میں کبھی بھی امن نہیں چاہتا  تھا لہذا امریکہ نے ان تمام حالات کے تناظر میں اس خطے کو جنگ کی طرف دھکیل دیا تاکہ اپنے اہداف حاصل کرسکے اور  جن وعدوں کے سہارے امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو طالبان سے بچائیں گے اور ایک اچھا مستقبل دیں گے، لیکن انہوں نے افغانستان کو ناامنی کا مرکز بنایا اور کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا اور آج  افغانی عوام کو اس دلدل میں پھنسا کر خود اپنی جان بچانے کے لیے  سب کچھ  طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ   کر  وہاں سے بھاگ نکلے۔

امریکہ  کے افغانستان سے  نکلنے کے علل و اسباب کیاہیں؟  امریکہ کی اصلی دشمنی خطے کے ممالک کے ساتھ ہے کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ چائنہ کی اقتصادی پیشرفت اور ترقی امریکہ کی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے

امریکہ کے طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والے مذاکرات میں امریکہ نے مئی تک مہلت مانگی تھی کہ افغانستان میں طالبان ان پر حملے کرنا بند کردیں تو وہ مئی2021ءمیں  وہاں سے نکل جائے  گا، تو  یہ مذاکرات   سب سے بڑی دلیل تھی کہ امریکہ خطے میں بہت کمزور ہوچکا ہے اور اس کا ہدف  یہی تھا کہ اگر میں یہاں سے نکل جاتا ہوں تو اس کے بعد افغان حکومت اور طالبان اقتدار کی خاطر آپس میں جنگ لڑیں گے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دوبارہ اس خطے کے امن  امان  کو  تباہ کرنے کا موقع ملے گا ،کیونکہ امریکہ کی اصلی دشمنی خطے کے ممالک کے ساتھ ہے کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ چائنہ کی اقتصادی پیشرفت اور ترقی ہے  وہ امریکہ کی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور امریکہ نہیں چاہتا کہ اس خطے کا کنٹرول چائنہ کے پاس ہو اور دنیا کی تمام  اقتصادی منڈیاں چائنہ کے ہاتھ میں چلی جائیں۔ چائنہ چونکہ دنیا میں ایک بہت بڑے اقتصادی ملک کے طور پر ابھر چکا ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا ہے تو اس لحاظ سے چائنہ نے جو پاکستان کے ساتھ مل کر گوادر کو فعال کیا اور سی پیک کا افتتاح کیا یہ فقط دو ممالک کے اقتصادی مستقبل کے لئے نہیں بلکہ خطے کے اندر تعمیر و ترقی کے لئے بہت اہم ہے  تو  امریکہ کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آیا تو انہوں نے چاہا کہ اس خطے کے مرکز کے اندر جو کہ افغانستان ہے، میں آگ جلائی جائے  تو اس سے یہ تمام تر خطے کے ممالک متاثر ہوں گے اوراس سے ان اقتصادی مقاصد میں بھی بہت رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی اور امریکہ اپنے اہداف میں کامیاب ہوگا۔

عمران خان کی افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی ہے وہ سابقہ حکمرانوں کی نسبت بہت ہی عاقلانہ، شجاعانہ اور مدبرانہ ہے جو قابل تحسین اور قابل قدر ہے، عمران خان سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ کے خطے میں کیا اہداف  ہیں اور ہمارا مستقبل اور خطے کا مستقبل کیا ہے انہوں نے حتی طالبان سے بھی کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کا حل عسکری نہیں بلکہ اقہام  وتفہیم  اور مذاکرات کے ذریعے ان مسائل کا حل ممکن ہے اور انہوں نے امریکہ کو بھی ایک پیغام دیا کہ اگر آپ خطے میں امن اور سلامتی چاہتے ہیں تو ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے لیکن پاکستان  خطے میں کسی نئی جنگ کا حصہ نہیں  بنے گا، کیونکہ جنگ کی وجہ سے پاکستان بہت نقصان اٹھا چکا ہے اور بڑی مالی اور  جانی قربانی بھی دے چکا ہے تو اس لحاظ سے عمران خان نے امریکہ کو  جرائتمندانہ جواب دیا ہے ،اس وجہ سے امریکہ ناراض ضرور ہے  لیکن اس سے پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں پاکستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے کیونکہ سی پیک ،گوادر یا ایران، چائنہ اور رشیا کے ساتھ تعلقات ہوں اس سے خطے کے دوسرے ممالک کے لیے  بھی فائدہ ہے  لیکن سب سے بڑا فائدہ پاکستان کو ہوگا اور اگر افغانستان کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو مسئلہ کشمیر کے حل کا یہ پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اس حوالے سے پاکستان کی پالیسی کو عالمی سطح پرسراہا جارہا ہے اور اس وقت پاکستان کے اندر جو فیصلہ ساز ادارے ہیں  ان میں افہام وتفہیم ہے حتی حساس اداروں کی جانب سے اپوزیشن اور حکومت کو جو بریفنگ دی ہے اس  میں بھی پاکستان کے اندر افغانستان کے حوالے سے حکومت نے جو پالیسی اختیار کی  اس پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور پاکستانی عوام سمجھ رہے ہیں  کہ عمران خان نے پاکستانی عوام کی ترجمانی کی ہے۔

عمران کی افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی ہے وہ سابقہ حکمرانوں کی نسبت بہت ہی عاقلانہ، شجاعانہ اور مدبرانہ ہے جو قابل تحسین اور قابل قدر ہے
ایران میں افغانی حکومتی نمائندے اور طالبانی وفد کے درمیان  ملاقات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

افغانستان کے موجودہ صورتحال  پر ایران کی پالیسی معتدل ہے  چونکہ ایران اور پاکستان وہ دو ایسے ممالک ہیں جو افغانستان کی کسی بھی ناامنی اور جنگ سے سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور اگر افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو سب سے زیادہ فائدہ  ان دو ممالک کو ہوتا ہے چونکہ جب انکے ہمسایہ ملک افغانستان میں امن قائم ہوگا  تو ان ممالک کے امن و امان کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ تو ایران کے  افغانستان کے تمام تر گروہوں کے ساتھ اچھے تعلقات  ہیں اور یہ ایران کی کامیاب خارجہ پالیسی ہے جس کی وجہ سے افغانستان کے حکومتی نمایندگان اور طالبان کو ایک ٹیبل پر بیٹھا چکا ہے اور یہ وہ کام ہے جو امریکہ سمیت کوئی ملک نہیں کرسکا اور یہی افغانستان کے مسائل کا حل ہےاور  امریکہ کے خلاف افغانی عوام نے جو مسلسل جہاد اورمقاومت کا مظاہرہ کیا  اس کے نتیجے میں افغانی عوام کو فتح نصیب ہوئی تو اب طالبان اور حکومت دونوں کو افہام و تفہیم کے ساتھ اپنے ملک اور عوام کی خاطر ایک ٹیبل پر بیٹھنا ہوگا اور ہر ایک کو قربانی دینی پڑے  گی اور یہ مذاکرات کا سلسلہ جو تہران میں شروع ہوا ہے جاری رہنا چاہیے کیونکہ اسی سے امریکہ اپنے اہداف میں ناکام اور خطے کے اندر امن امان ہوگا.

آپ کی نظر میں افغانستان کے اندر ایک مستقل حکومت کیسے قائم ہوسکتی ہے۔۔؟

افغانستان  کی موجودہ حکومت  اگر  یہ تصور کرے  کہ وہ طالبان کے بغیر اس ملک کا نظام چلاسکتی ہے تو یہ بھی خام خیالی ہے اور دوسری طرف طالبان یہ فکر کرے کہ وہ تمام تر سیاسی قوتوں اور حکومت کو  نظر انداز کرکے جنگ و قتل کے ذریعے افغانستان پر مسلط ہوں گے اور حکومت کریں گے تو یہ بھی انکی خام خیالی ہے اور افغان حکومت اور طالبان جتنا بھی آپس میں لڑیں  آخر میں ان سب کو ایک مرتبہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا کیونکہ یہ جنگ بہت طول پکڑے گی  اور  دونوں کو سوچنا چاہیے کہ کوئی بھی مکمل فتح نہیں کرسکے گا، طالبان کو اپنے ہاتھوں کو دوبارہ افغانی عوام کے خون سے رنگین نہیں کرنا چاہیے ، ماضی کی غلطیاں کو دہرانا نہیں چاہیے ،اگر انہوں نے یہ غلطیاں دہرائیں تو کبھی بھی اس ملک میں امن قائم نہیں ہوگا ،نہ طالبان حکومت کرسکیں گے نہ ہی کوئی اور ، افغانستان  اسی طرح کے حالات میں گھیرا رہے گا اور اس سے ان کے ازلی دشمن  امریکہ اور مغربی ممالک  کے اہداف پورے ہوں گے.