سعودی عرب کی شام اور لبنان میں مشکوک سرگرمیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ سعودی حکومت بحرانی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دمشق اور بیروت میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ ایک سال کے دوران مشرق وسطی سیاسی، دفاعی اور سفارتی لحاظ سے بحران سے دوچار ہے۔ امریکہ اور صہیونی حکومت کی جانب سے خطے کے ممالک میں مداخلت اور جارحانہ حملوں کی وجہ سے خطے میں کشیدگی عروج پر ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں چھوٹے ممالک میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کریں۔ سعودی عرب کی لبنان اور شام میں سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ سعودی حکام موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا کر خطے میں زیادہ اہم کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

خلیج فارس کے عرب ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کے باوجود سعودی عرب اس خطے کی قیادت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی بنیادی وجہ خلیج فارس کے ممالک کے درمیان شدید رقابت ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ کا کردار، جو ان ممالک کے درمیان تنازعات کو بڑھاوا دیتا رہا ہے، نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ 2017 سے 2021 کے دوران قطر کی ناکہ بندی اس کی بہترین مثال ہے البتہ سعودی عرب کا منصوبہ ناکام ہوا اور قطر کامیابی سے باہر آیا۔ مزید برآں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان یمن میں شروع ہونے والی رقابت لیبیا اور سوڈان تک پھیل گئی اور حالیہ دنوں میں شام تک جاپہنچی ہے۔

اس دوران عمان نے محتاط رویہ اپنایا اور یمن کے دلدل میں سعودی عرب کے ساتھ شامل ہونے سے گریز کیا۔ عمان نے سعودی-اماراتی حملوں کے دوران یمن کی مقاومتی تنظیم انصاراللہ کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے۔ قطر بھی جس کے ایران کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، اس رقابت میں اپنی الگ حکمت عملی پر عمل پیرا رہا۔

سعودی عرب کی حالیہ سرگرمیاں اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ ریاض خطے میں بڑا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی مقصد کے تحت سعودی عرب نے شام اور لبنان کو اپنی نئی حکمت عملی کا مرکز بنایا ہے۔ سعودی حکام کا ماننا ہے کہ موجودہ سیاسی حالات میں وہ انسان دوستی اور مالی امداد کے پردے میں ان دونوں ممالک کے قریب ہوکر اپنے لیے ایک مضبوط جگہ بنا سکتے ہیں۔

دیگر عرب اور خلیجی ممالک کے برخلاف سعودی عرب شام میں "اسد کے بعد کی شام" کی تشکیل میں اپنے مقاصد اور توقعات کے مطابق کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

سعودی حکام کا ارادہ ہے کہ نئے شامی حکمرانوں کو ایک ایسا "عربی سماجی اسلامی ماڈل" اپنانے کی ترغیب دیں جو ترکی کے موجودہ سماجی اسلامی ماڈل کی جگہ لے سکے۔ اس لیے سعودی عرب کی جانب سے شام کو دی جانے والی کسی بھی مدد کو ان مطالبات پر عمل کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔

لبنان کے معاملے میں سعودی حکام کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں وہاں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا ان کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کا یہ تجزیہ ایران کے لبنان میں کم ہوتے اثر و رسوخ اور اپنے پسندیدہ امیدوار کے لبنانی صدارت پر فائز ہونے کی توقع پر مبنی ہے۔تاہم لبنان میں سعودی کردار کی نوعیت اور کامیابی نئے لبنانی حکمرانوں کے ریاض کے ساتھ تعلقات اور سعودی مفادات کی تکمیل پر منحصر ہوگی۔

خطے میں قیادت کے دعوے کے لیے سعودی عرب کو معلوم ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر کسی معقول مؤقف کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ لیکن ریاض نے اپنے موقف کو مکمل طور پر بدلنے کے بجائے اس میں تبدیلی کی ہے۔

سعودی عرب غزہ میں اسرائیلی نسل کشی پر تنقید سے اجتناب کرتا ہے تاکہ اسرائیل اور امریکہ کو ناراض نہ ہوجائیں۔ اس کے بجائے وہ ایسے معاملات پر توجہ مرکوز کررہا ہے جو کم حساسیت کے حامل ہیں اور جن سے عالمی تناؤ میں اضافہ نہ ہو۔ یہ حکمت عملی سعودی عرب کے خطے میں کردار اور اثر و رسوخ بڑھانے کے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔

سعودی عرب نے کئی سالوں کے بعد خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا فیصلہ معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ہے جس میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کا سقوط، حزب اللہ کی موجودہ حالت اور ایران کا علاقائی کردار شامل ہے۔

تاہم سعودی حکام اپنی حکمت عملی میں دو اہم نکات کو نظر انداز کر رہے ہیں:

1. حزب اللہ کا کردار: حزب اللہ محض ایک فوجی قوت نہیں ہے۔ یہ نہ صرف لبنان میں عسکری طاقت کے ساتھ میدانِ عمل میں موجود ہے بلکہ سیاسی منظرنامے پر بھی مضبوط حیثیت رکھتی ہے۔ حزب اللہ ہر صورت میں لبنان کے قومی مفادات کا دفاع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ سعودی عرب گزشتہ برسوں میں لبنان میں اپنی خواہشات کے خلاف حزب اللہ کی مزاحمت کو بخوبی دیکھ چکا ہے۔

2. ایران کی طاقت: ایران کی طاقت شام یا کسی دوسرے ملک سے وابستہ نہیں ہے کہ ان ممالک کے عروج یا زوال سے ایران کی قوت میں کمی یا اضافہ ہو۔ ایران کی طاقت ایک خودمختار نظریاتی، سیاسی، اور اسٹریٹجک بنیاد پر قائم ہے جو عالمی اور علاقائی سطح پر اثر ڈالتی ہے۔

اس کے برعکس سعودی عرب کی طاقت کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں سب سے اہم امریکہ کی حمایت ہے۔ سعودی عرب امریکی منظوری کے بغیر کوئی بھی قدم اٹھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اندرونی سطح پر سعودی طاقت کا دارومدار تیل کی دولت پر ہے، جو اس کی مالی اور انسانی امداد کے ذریعے اثر و رسوخ بڑھانے کی پالیسی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ لبنان اور شام میں سعودی عرب کی حالیہ سرگرمیاں بھی مالی امداد اور انسان دوستی کی شکل میں اپنے نفوذ کو بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔