مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رائ الیوم نے اسرائیل کے جدید دفاعی سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے یمنی ڈرون طیاروں نے تل ابیب کے مرکز کو نشانہ بنایا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔
صہیونی ذرائع ابلاغ نے حملے میں ایک ہلاک اور چھے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم مبصرین کے مطابق نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں کیونکہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ دور دور تک آواز سنی گئی تھی۔ تل ابیب کے میئر ران خوالدای نے شہر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یمنی حملوں کے مقابلے میں تل ابیب کی ناتوانی
اسرائیل کے پاس طیارہ بردار بحری جہاز یا بی 1 اور بی 2 جیسے طویل فاصلے تک پرواز کرنے والے بمبار جہاز نہیں ہے اس وجہ اسرائیلی طیاروں کا یمن تک لمبا پرواز کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اسرائیل سے یمن کا فاصلہ 2300 کلومیٹر ہے۔
اگرچہ صہیونی فوج کے پاس ایف 15 بمبار طیارے موجود ہیں تاہم اس طیارے کے لئے بھاری بھرکم بموں کے ساتھ اتنا لمبا فاصلہ طے کرنا بہت مشکل ہے علاوہ ازین راستے میں فیول کی کمی کا مسئلہ بھی پیش آسکتا ہے جس کو صہیونی فوج حل نہیں کرسکتی ہے۔
حال ہی میں اسرائیل نے امریکہ سے 100 ایف 16 طیارے حاصل کئے ہیں جو ریڈار کی نظروں سے بچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں اور 1800 کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ طے نہیں کرسکتے ہیں اگرچہ تل ابیب کا دعوی ہے کہ یہ طیارے 2100 کلومیٹر تک پرواز کرسکتے ہیں تاہم اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کو 50 ایف 35 طیارے بھی دئیے ہیں جو ریڈار سے بچ کر حملہ کرسکتے ہیں لیکن اس طیارے کی زیادہ سے زیادہ پرواز 2200 کلومیٹر ہے۔ اگر ایف 35 طیارے یمن تک پرواز کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو بھی واپسی پر فیول کی کمی کا سامنا ہوگا۔
رائ الیوم نے کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو طیارہ بردار بحری جہاز اور طویل فاصلے تک پرواز کرنے والے بمبار طیارے نہیں دے سکا ہے کیونکہ یہ اقدام ایران سے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔
یمنی حملے روکنے کا راہ حل
اسرائیل کے پاس یمنی حملوں کو روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جو کہ غزہ پر جارحیت کا خاتمہ ہے لہذا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکہ جلد اسرائیل کو غزہ پر حملے روکنے کا حکم جاری کرسکتا ہے۔ اس طرح صہیونی فوج غزہ سے انخلاء کرے گی۔ واشنگٹن کے لئے مزید تل ابیب کی حمایت ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کے لئے یمن پر وسیع حملے کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس طرح عراق اور شام سمیت مشرق وسطی میں امریکی تنصیبات خطرے میں پڑجائیں گی اور ایران بھی جنگ میں داخل ہوسکتا ہے۔
ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل غزہ پر جارحیت روکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔