مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی عبوری وزیرخارجہ نے نیویارک میں امریکی چینل سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونی حکومت نے گذشتہ نو مہینوں کے دوران غزہ میں ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھا ہے لیکن اس کے باوجود حالات اس کے مخالف رخ کی طرف حرکت کررہے ہیں۔ نتن یاہو اپنے مظالم چھپانے کے لئے نت نئے طریقے اپنا رہے ہیں تاہم عالمی سطح پر ان کی رسوائی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں ایران کے ملوث ہونے کی خبروں کے بارے میں کہا کہ شہید سلیمانی پر حملے کے فورا بعد ایران نے عدالتی طریقے سے واقعے کی تحقیقات شروع کیں لہذا ایران داخلی اور بیرونی سطح پر عدالتی طریقے سے تمام تر وسائل سے استفادہ کرے گا تاکہ واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکے۔ امریکی رہنماوں پر ہونے والے حملوں کے تانے بانے امریکہ کے داخلی مسائل اور سیاسی بازوں کی باہمی چپقلش سے ملتے ہیں۔ ایران عدالتی اور قانونی طریقے سے شہید سلیمانی پر ہونے والے حملے کی تحقیقات جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران خطے میں جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خلاف ہے۔ صہیونی حکومت نے کئی مرتبہ لبنان کو جنگ کی دھمکی دی ہے۔ صہیونی حکام جنگ کا دائرہ وسیع کرکے غزہ میں ہونے والی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ شمالی سرحدوں پر جنگ سے ان کے لئے حالات مزید بدتر ہوں گے۔
مسئلہ فلسطین کے حل کے بارے میں ایک سوال جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں فلسطینیوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں بلکہ فلسطینی عوام کو یہ حق دینا چاہئے۔ اگر امریکی عوام کے لئے جمہوریت اچھی چیز ہے تو فلسطین کے عوام کے لئے کیوں نہیں؟ فلسطینی عوام کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا حق کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟ ہماری تجویز یہی ہے کہ فلسطین کے عوام کے درمیان ریفرنڈم کیا جائے جس میں فلسطین میں رہنے والوں اور صہیونی حکومت کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں کو شامل کیا جائے۔ مسلمان، عیسائی اور یہودی سب اس ریفرنڈم میں حصہ لیں اور اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کریں۔