مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ کے النصیرات کیمپ میں معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین سمیت سینکڑوں نہتے فلسطینیوں کا خون بہانے کے بعد عالمی سطح پر صہیونی حکومت پر تنقید ہورہی ہے۔ کابینہ کے اہم اراکین کی جانب سے استعفی دینے کے بعد صہیونی حکومت کو اندرونی سطح پر بھی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
نتن یاہو کی جانب سے غزہ میں کامیابی کے بلند و بانگ دعوے پر کوئی یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وزراء کے استعفوں کے بعد صہیونی حکومت کی بنیادی ہلنا شروع ہوگئی ہیں۔
النصیرات میں تاریخی جنایت کے بعد کابینہ میں شامل سابق اسرائیلی جنرل بنی گینتز نے سب سے پہلے استعفی دیا۔ ان کے بعد گاڈی آئزنکوت نے بھی گینتز کے الزامات دہراتے ہوئے مستعفی ہونے کا فیصلہ کردیا۔ ہیلی ٹروپر کے استعفی سے نتن یاہو حکومت کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔
بنی گینتز نے کہا ہے کہ نتن یاہو غزہ کی جنگ کو کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں لہذا جلد عام انتخابات کرنے کی ضرورت ہے۔ نتن یاہو نے وزراء کے استعفوں کے بعد ردعمل میں کہا ہے کہ یہ استعفوں کے بجائے اتحاد کا وقت ہے۔ انہوں نے استعفوں کے بعد پیدا ہونے والے بحران کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
بنی گینتز کے استعفے کے بعد کابینہ میں شامل انتہا پسند ورزاء آپے سے باہر ہوکر مزید احمقانہ فیصلے کرسکتے ہیں جس سے بحران مزید بڑھے گا۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران نتن یاہو اور انتہا پسند ورزاء کے فیصلے سودمند ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر فلسطین کے لئے حالات سازگار ہورہے ہیں۔ یورپی ممالک فلسطین کو خودمختار ملک تسلیم کررہے ہیں۔ ان ممالک نے اسرائیل کی حمایت چھوڑ دی ہے۔
کابینہ سے مستعفی ہونے والے گاڈی آئزنکوت نے کہا ہے کہ نتن یاہو فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے غیر سنجیدہ فیصلوں سے اسرائیل کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم سے صہیونی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
کابینہ کے رکن ہیلی ٹروپر نے بھی استعفی پیش کرنے کے بعد کہا ہے کہ نتن یاہو کابینہ اسرائیل کے لئے سودمند فیصلے کرنے میں ناکام ہوئی ہے لہذا جلد عام انتخابات کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں صہیونی وزراء کے استعفوں کی بازگشت
بنی گینتز اور دو وزراء کے استعفوں سے علاقائی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں صہیونی حکومت کی مشکلات کے حوالے سے جاری بحث زور پکڑ گئی ہے۔ سی این این کے مطابق صدر جوبائیڈن نے کئی مرتبہ نتن یاہو سے جنگ بندی کی تجویز پر غور کرنے کی اپیل کی ہے تاہم نتن یاہو نے مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ نتن یاہو جنگ کو طول دے کر ذاتی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سی این این کے مطابق سابق صہیونی جنرل بنی گینتز نے ایک تجویز پیش کی ہے کہ غزہ کے محدود علاقے میں فلسطینی مہاجرین کو واپس لاکر آباد کرنے کے بعد حماس کو ختم کیا جائے۔ یہ علاقہ مکمل محاصرے میں رہے گا۔ نتن یاہو نے اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ نتن یاہو جنگ کے علاوہ کسی اور تجویز کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اسرائیلی اخبار معاریو کے مطابق بنی گینتز کی تجویز کو 42 فیصد حمایت حاصل ہے جبکہ نتن یاہو کے فیصلے پر صرف 32 فیصد راضی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق بنی گنتز نتن یاہو کو کامیابی کے حصول میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے کئی مہینے گزرنے کے باوجود اسرائیل کو غزہ میں کامیابی نہیں ملی ہے۔
بنی گینتز کے استعفے کے بعد اسرائیل میں ناامیدی کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ اسرائیلی عوام سمجھ چکے ہیں کہ صہیونی سیاسی جماعتوں کے پاس غزہ کی جنگ کے حوالے سے ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔ دوسری طرف کوئی بھی شکست کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق انتخابات ہونے کی صورت میں بنی گینتز آسانی کے ساتھ نتن یاہو کو شکست دے سکتے ہیں۔
بنی گینتز کے استعفے کے بعد صدر جوبائیڈن اور امریکی حکومت کے لئے مشکلات بڑھ گئی ہیں کیونکہ نتن یاہو کابینہ میں گینتز ان کے بڑے حامی سمجھے جاتے تھے۔ انتھونی بلینکن نے تل ابیب کے دوروں کے دوران ان کے سہارے کئی اقدامات کئے تھے تاکہ جنگ بندی کی کوئی راہ نکل آئے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کا منصوبہ بھی بنی گینتز کی حمایت اور سہارے سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ان کے استعفے کے بعد دائیں بازو کے انتہاپسند صہیونی صدر جوبائیڈن کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور نہیں کریں گے۔