مہر نیوز کے مطابق، حماس کے پولیٹیکل بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ نے لبنان کے المنار ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: صہیونی دشمن طاقت کے ذریعے بقیہ قیدیوں کو بازیاب کروانا چاہتا ہے۔
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو غزہ کے مزاحمتی گروپوں کی جانب سے جوابی کارروائی (طوفان الاقصیٰ) کے دوران تقریباً 250 صیہونیوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اس آپریشن کے بعد اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں کم از کم 35,272 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
تاہم حماس نے نومبر کے آخر میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران 105 قیدیوں کو رہا کیا۔
حماس نے حال ہی میں ایک اور جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق کیا ہے جس سے اسرائیلی جارحیت کو روکنے اور باقی قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ تاہم اسرائیلی رجیم نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
حماس کے عہدیدار نے کہا کہ "ہمارے سامنے پیش کی گئی تازہ ترین تجویز ہمارے مطالبات کے بالکل قریب ہے، لیکن دشمن نے اس تجویز یا ثالثوں کا احترام نہیں کیا ہے۔"
الحیہ نے حماس کے مطالبات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ممکنہ جنگ بندی کے معاہدے میں اسرائیلی جارحیت کے مکمل اور جامع خاتمے، غزہ سے تمام اسرائیلی افواج کے انخلاء اور پھر قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہونا ضروری ہے۔
حماس کے عہدیدار نے مزاحمت کو شکست دینے سمیت اپنے جنگی اہداف کو حاصل کرنے میں اسرائیلی حکومت کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا: آٹھ ماہ سے جاری جارحیت اور تمام تر کارروائیوں کے باوجود کے بعد دشمن غزہ میں مزاحمت کو ختم کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے۔
جب کہ مزاحمت مزید7 کئی مہینوں تک جنگ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جب تک لڑائی جاری ہے وہ اپنے لوگوں کا دفاع کرتی رہے گی۔"
الحیہ نے علاقائی مزاحمتی گروہوں کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیلی اہداف اور قابض حکومت سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائیوں کے لئے شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ "یمن، لبنان اور عراق کے محاذ غزہ کی حمایت کرتے ہوئے اپنی کارروائیوں کے خاتمے کو غزہ پر جارحیت کے خاتمے سے جوڑتے ہیں۔"
"جب ہم خطے میں مزاحمتی قوتوں سے ملتے ہیں، تو ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس وقت ہم سب مل کر ایک ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔"