مہر خبررساں ایجنسی نے جیو نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکی اخبار کوانٹرویو میں ہالا رہاریت نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ 18 برس کے کیرئیر میں ہمیشہ پالیسی پر بات ہوتے دیکھی تھی کہ امریکا کیا غلط کر رہا ہے اور کیا درست مگر حیران کن اور منجمد کرنے والی یہ صورتحال پہلی مرتبہ غزہ تنازعے پر پیدا ہوئی تھی اس لیے اکتوبر سے غزہ صورتحال پر انٹرویو دینا بند کردیے تھے۔
ہالا رہاریت نے بتایا کہ محکمہ خارجہ میں لوگ ڈر کے مارے غزہ کا ذکر کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ خارجہ غزہ پر جن نکات پر بات کا کہتا تھا وہ اشتعال انگیز تھے، وہ نکات فلسطینیوں کو یکسر نظرانداز کرتے تھے، ان میں فلسطینیوں کی حالت زار کا ذکر نہیں ہوتا تھا۔
ہالا رہاریت نے کہا کہ اگر وہ محکمہ خارجہ کے نکات پر بات کرتیں تو لوگ ٹی وی پر جوتا مارنے کا سوچتے، امریکی پرچم جلانے کا سوچتے اور امریکی فوج پر راکٹ مارنے کا سوچتے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ڈر ہے یتیم فلسطینی بچے کل کو ہتھیار اٹھا کر بدلا لینے نہ کھڑے ہو جائیں کیونکہ امریکی پالیسی پوری نسل کو انتقام پر اکسا رہی ہے۔
ہالا نے کہا کہ بطور انسان، بطور ایک ماں یہ کیسے ممکن ہے، مردہ فلسطینی بچوں کی ویڈیو آپ پر اثر نہ ڈالیں؟
انہوں نے کہا کہ یہ المناک تھا کہ فلسطینی بچوں کو مارنے والے بم ہمارے تھے اور زیادہ المناک یہ تھا کہ اموات کے باوجود ہم مزید اسلحہ اسرائیل بھیج رہے تھے۔
ہالا نے اس معاملے پر امریکی پالیسی کو پاگل پن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اسلحہ کی نہیں سفارت کاری کی ضرورت ہے۔