مہر خبررساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے قومی سلامتی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین نے اسرائیل پر ایران کے جوابی حملے کے دوران اردن کے منفی کردار کے بارے میں بات کی جس نے صیہونیوں کے لیے ایرانی ڈرون اور میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی فضائی حدود کھول دی تھیں۔
شہریار حیدری نے کہا کہ توقع ہے کہ خطے کے مسلم ممالک فلسطین اور غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کریں گے" اگرچہ اردن کے عوام فلسطین کی مکمل حمایت کرتے ہیں، لیکن وہاں کی حکومت مختلف انداز میں کام کر رہی ہے۔
انہوں نے اردن کے اس اقدام کو امریکہ اور اسرائیل کے زیر اثر سمجھتے ہوئے کہا کہ اردن کم از کم خاموش رہ سکتا تھا یا صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے جائز دفاع کی حمایت بھی کر سکتا تھا لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اس نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ اردن کی جانب سے ایران کے خلاف کارروائی موثر نہیں تھی لیکن یہ کارروائی بذات خود بہت اہم تھی۔ "اردن نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون کرکے ایک اسٹریٹجک غلطی کی ہے۔"
ایران کے قومی سلامتی کمیشن کے نسئب سربراہ نے اردن کے عوام سمیت مختلف اقوام کی طرف سے اردن کے اقدام کی مذمت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اردن نے یہ کام صیہونی حکومت اور امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کیا؛ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردن کی حکومت نے صیہونی رجیم کے ساتھ تعاون اپنے عوام کی خاطر نہیں کیا بلکہ اپنا شاہی اقتدار بچانے کے لئے کیا۔
انہوں نے اسرائیلی حکومت کے خلاف ایران کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے تمام مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین کی حمایت کا فریضہ ادا کریں۔
انہوں نے کہا: توقع کی جاتی ہے کہ اسلامی ممالک فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے کیونکہ صیہونی حکومت نے حالیہ مہینوں میں غزہ میں بہت سے جرائم اور قتل و غارت گری کی ہے اور آج اگر اسرائیل پورے غرور کے ساتھ خود کو غزہ کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سارے مسلم ممالک فلسطینیوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ لہذا اسلامی ممالک کو عملی طور پر فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیلی رجیم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔